پھولوں کی نمائش میں اگر وہ بھی ہوا تو
اس بار گلابوں کو بڑی آگ لگے گی
اس بار گلابوں کو بڑی آگ لگے گی
میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا
چل انشاء اپنے گاؤں میں یہاں الجھے الجھے روپ بہت پر اصلی کم بہروپ بہت اس پیڑ کے نیچے کیا رکنا جہاں کم ہو دھوپ بہت چل انشاء اپنے گاؤں میں بیٹھے گے سکھ کی چھاؤں میں کیوں تیری آنکھ سوالی ہے یہاں ہر اک بات نرالی ہے اس دیس بسیرا مت کرنا یہاں مفلس ہونا گالی ہے چل انشاء اپنے گاؤں میں جہاں سچے رشتے یاروں کے جہاں وعدے پکے پیاروں کے چل انشاء اپنے گاؤں میں |
قبل اس کے۔ ۔ ۔
دسمبر کی ہواؤں سے رگوں میں خون کی گردش ٹھہر جائے
جسم بے جان ہو جائے
تمہاری منتظر پلکیں جھپک جائیں
بسا جو خواب آنکھوں میں ہے وہ ارمان ہوجائے
برسوں کی ریاضت سے
جو دل کا گھر بنا ہے پھر سے وہ مکان ہو جائے
تمہارے نام کی تسبیح بھلادیں دھڑکنیں میری
یہ دل نادان ہو جائے
تیری چاہت کی خوشبو سے بسا آنگن جو دل کا ہے
وہ پھر ویران ہوجائے
قریب المرگ ہونے کا کوئی سامان ہوجائے
قبل اس کے۔ ۔ ۔
دسمبر کی یہ ننھی دھوپ کی کرنیں
شراروں کی طرح بن کر، میرا دامن جلا ڈالیں
بہت ممکن ہے
پھر دل بھی برف کی مانند پگھل جائے
ممکن پھر بھی یہ ہے جاناں۔ ۔ ۔
کہ تیری یاد بھی کہیں آہ بن کر نکل جائے
موسمِ دل بدل جائے ۔ ۔ ۔
یا پہلے کی طرح اب پھر دسمبر ہی نہ ڈھل جائے
!قبل اس کے۔ ۔ ۔
دسمبر اور ہم تیری راہوں میں بیٹھے تم کو یہ آواز دیتے ہیں
کہ تم ملنے چلے آؤ
دسمبر میں چلے آؤ