میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا

Ads

Monday, January 24, 2011

gham ke kahanian


غمِ زندگی تیرا شکریہ ترے فیض ہی سے یہ حال ہے

غمِ زندگی تیرا شکریہ ترے فیض ہی سے یہ حال ہے
وہی صبح و شام کی الجھنیں، وہی رات دن کا وبال ہے

نہ چمن میں بوئے سمن رہی نہ ہی رنگِ لالہ و گل رہا

تو خفا خفا سا ہے واقعی کہ یہ صرف میرا خیال ہے

اسے کیسے زیست کہے کوئی گہے آہِ دل گہے چشمِ نم

وہی رات دن کی مصیبتیں وہی ماہ ہے وہی سال ہے

میں غموں سے ہوں جو یوں مطمئن تو برا نہ مانے تو میں کہوں

ترے حسن کا نہیں فیض کچھ، میری عاشقی کا کمال ہے

ہے یہ آگ کیسی لگی ہوئی میرے دل کو آج ہوا ہے کیا

جو ہے غم تو ہے غمِ آرزو، اگر ہے تو فکرِ وصال ہے

کوئی کاش مجھ کو بتاسکے رہ و رسمِ عشق کی الجھنیں

وہ کہے تو بات پتے کی ہے میں کہوں تو خام خیال ہے

زہے عشقِ احمدۖ مصطفےٰ نہیں فکر روزِ جزا مجھے

یہی آرزوؤں کی عید ہے، یہی زندگی کا مآل ہے

یہ بتا کہ کیا ہے تجھے ہوا پئے عشق سرورِ غم زدہ

نہ وہ
مستیاں نہ وہ شوخیاں نہ وہ حال ہے نہ وہ قال ہے

میں نے ہر چند غمِ عشق کو کھونا چاہا

میں نے ہر چند غمِ عشق کو کھونا چاہا
غمِ الفت غمِ دنیا میں سمونا چاہا
وہی افسانے مری سمت رواں ہیں اب تک
وہی شعلے مرے سینے میں نہاں ہیں اب تک
وہی بے سود خلش ہے مرے سینے میں ہنوز
وہی بیکار تمنائیں جواں ہیں‌اب تک
وہی گیسو مری راتوں پہ ہیں بکھرے بکھرے
وہی آنکھیں مری جانب نگراں ہیں اب تک
کثرتِ غم بھی مرے غم کا مداوا نہ ہوئی!
میرے بے چین خیالوں کو سکون مل نہ سکا
دل نے دنیا کے ہر اک درد کو اپنا تو لیا
مضمحل روح کو اندازِ جنوں مل نہ سکا
میری تخئیل کا شیرازۂ برہم ہے وہی
میرے بجھتے ہوئے احساس کا عالم ہے وہی
وہی بے جان ارادے وہی بے رنگ سوال
وہی بے روح کشاکش وہی بے چین خیال
آہ اس کشمکشِ صبح و مسا کا انجام
میں بھی ناکام مری سعی عمل بھی ناکام

ہر ایک روح میں اک غم چھپا لگے ہے مجھ

ہر ایک روح میں اک غم چھپا لگے ہے مجھے
یہ زندگی تو کوئی بد دعا لگے ہے مجھے
جو آنسووں میں کبھی رات بھیگ جاتی ہے
بہت قریب وہ آواز پا لگے ہے مجھے
میں سو بھی جاؤں تو کیا میری بند آنکھوں میں
تمام رات کوئی جھانکتا لگے ہے مجھے
میں جب بھی اس کے خیالوں میں کھو سا جاتا ہوں
وہ خود بھی بات کرے تو برا لگے ہے مجھے
دبا کے آئی ہے سینے میں کون سی آہیں
کچھ آج رنگ ترا سانولا لگے ہے مجھے
نہ جانے وقت کی رفتار کیا دکھاتی ہے
کبھی کبھی تو بڑا خوف سا لگے ہے مجھے
بکھر گیا ہے کچھ اس طرح آدمی کا وجود
ہر ایک فرد کوئی سانحہ لگے ہے مجھے
 اب ایک آدھ  قدم کا حساب کیا رکھیئے
ابھی تلک تو وہی فاصلہ لگے ہے مجھے
حکایتِ غمِ دل کچھ کشش تو رکھتی ہے
 زمانہ غور سے سنتا ہوا  لگے ہے مجھے

شدید دُکھ تھا اگرچہ تری جُدائی کا

شدید دُکھ تھا اگرچہ تری جُدائی کا
سِوا ہے رنج ہمیں تیری بے وفائی کا
تجھے بھی ذوق نئے تجربات کا ہو گا
ہمیں بھی شوق تھا کُچھ بخت آزمائی کا
جو میرے سر سے دوپٹہ نہ ہٹنے دیتا تھا
اُسے بھی رنج نہیں میری بے ردائی کا
سفر میں رات جو آئی تو ساتھ چھوڑ گئے
جنھوں نے ہاتھ بڑھایا تھا رہنمائی کا
ردا چھٹی مرے سر سے، مگر میں کیا کہتی
کٹا ہُوا تو نہ تھا ہاتھ میرے بھائی کا
ملے تو ایسے، رگِ جاں کو جیسے چُھو آئے
جُدا ہُوئے تو وہی کرب نارسائی کا
کوئی سوال جو پُوچھے، تو کیا کہوں اُس سے
بچھڑنے والے! سبب تو بتا جدائی کا
میں سچ کو سچ ہی کہوں گی، مجھے خبر ہی نہ تھی
تجھے بھی علم نہ تھا میری اس بُرائی کا
نہ دے سکا مجھے تعبیر،خواب تو بخشے
میں احترام کروں گی تری بڑائی کا

دُکھ نوشتہ ہے تو آندھی کو لکھا ! آہستہ

دُکھ نوشتہ ہے تو آندھی کو لکھا ! آہستہ
اے خدا اب کے چلے زرد ہوا ، آہستہ
خواب جل جائیں ، مری چِشم تمنّا بُجھ جائے
بس ہتھیلی سے اُڑے رنگ حِنا آہستہ
زخم ہی کھولنے آئی ہے تو عجلت کیسی
چُھو مرے جسم کو ، اے بادِ صبا ! آہستہ!
ٹوٹنے اور بکھرنے کا کوئی موسم ہو
پُھول کی ایک دُعا۔۔۔۔موجِ ہوا! آہستہ
جانتی ہوں کہ بچھڑنا تری مجبوری ہے
مری جان ! ملے مجھ کو سزا آہستہ
میری چاہت میں بھی اب سوچ کا رنگ آنے لگا
اور ترا پیار بھی شدّت میں ہوا آہستہ
نیند پر جال سے پڑنے لگے آوازوں کے
اور پھر ہونے لگی تیری صدا آہستہ
رات جب پُھول کے رُخسار پہ دھیرے سے جھکی
’’چاند نے جھک کے کہا، اور ذرا آہستہ!‘‘

dukh boltay hain


kahon kis se qissa e dard o gham


yeh nahi k gham nhe


agar wo poch lein:-)


teri judae ka dukh


gham e tanhae


hadis e gham


Gham nhe


pehle to teri justiju


tu meray jism ke roh ko acha kar de


ehsas


khuda kise ko kise se juda na karay


Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Follow on Facebook