عیسویں کیلنڈر کا بارہواں مہینہ دسمبر ہے۔ دسمبر اپنے ساتھ جاڑے کی خنک شامیں، یخ بستہ ہوائیں اور بہت سی دل کو گرما دینے والی یادیں لئے چلا آتا ہے۔ سال کا آخری مہینہ ہونے کے ناطے دسمبر ایک طرف جدائی اور ہجر کا استعارہ ہے تو دوسری جانب نئے آنے والے سال کی اُمید بھی۔ شاید اسی جذباتی وابستگی کے باعث دسمبر کے مہینے کو شاعروں کی کچھ زیادہ ہی توجہ حاصل رہی اور کئی ایک شعرا نے دسمبر کو اپنی شاعری میں جگہ دی ۔ دسمبر اداسی کا استعارہ ہے اور اس پر نثر سے زیادہ شاعری میں کہا جاتا رہا ہے
ہمارے حال پر رویا دسمبر
وہ دیکھو ٹوٹ کر برسا دسمبر
گزر جاتا ہے سارا سال یوں تو
نہیں کٹتا مگر تنہا دسمبر
بھلا بارش سے کیا سیراب ہوگا
تمھارے وصل کا پیاسا دسمبر
وہ کب بچھڑا، نہیں اب یاد لیکن
بس اتنا علم ہے کہ تھا دسمبر
یوں پلکیں بھیگتی رہتی ہیں جیسے
میری آنکھوں میں آ ٹھہرا دسمبر
جمع پونجی یہی ہے عمر بھر کی
میری تنہائی اور میرا دسمبر
وہ دیکھو ٹوٹ کر برسا دسمبر
گزر جاتا ہے سارا سال یوں تو
نہیں کٹتا مگر تنہا دسمبر
بھلا بارش سے کیا سیراب ہوگا
تمھارے وصل کا پیاسا دسمبر
وہ کب بچھڑا، نہیں اب یاد لیکن
بس اتنا علم ہے کہ تھا دسمبر
یوں پلکیں بھیگتی رہتی ہیں جیسے
میری آنکھوں میں آ ٹھہرا دسمبر
جمع پونجی یہی ہے عمر بھر کی
میری تنہائی اور میرا دسمبر
-----------------------------------------------------------
قبل اس کے۔ ۔ ۔
دسمبر کی ہواؤں سے رگوں میں خون کی گردش ٹھہر جائے
جسم بے جان ہو جائے
تمہاری منتظر پلکیں جھپک جائیں
بسا جو خواب آنکھوں میں ہے وہ ارمان ہوجائے
برسوں کی ریاضت سے
جو دل کا گھر بنا ہے پھر سے وہ مکان ہو جائے
تمہارے نام کی تسبیح بھلادیں دھڑکنیں میری
یہ دل نادان ہو جائے
تیری چاہت کی خوشبو سے بسا آنگن جو دل کا ہے
وہ پھر ویران ہوجائے
قریب المرگ ہونے کا کوئی سامان ہوجائے
قبل اس کے۔ ۔ ۔
دسمبر کی یہ ننھی دھوپ کی کرنیں
شراروں کی طرح بن کر، میرا دامن جلا ڈالیں
بہت ممکن ہے
پھر دل بھی برف کی مانند پگھل جائے
ممکن پھر بھی یہ ہے جاناں۔ ۔ ۔
کہ تیری یاد بھی کہیں آہ بن کر نکل جائے
موسمِ دل بدل جائے ۔ ۔ ۔
یا پہلے کی طرح اب پھر دسمبر ہی نہ ڈھل جائے
!قبل اس کے۔ ۔ ۔
دسمبر اور ہم تیری راہوں میں بیٹھے تم کو یہ آواز دیتے ہیں
کہ تم ملنے چلے آؤ
دسمبر میں چلے آؤ