پھر دسمبر کی یکم آئی ہے اور وہی پرانی یخ بستہ راتیں
پھر تیری یادیں ہیں دل میں اور دسمبر کی راتیں
دن تو کسی طور کٹ ہی جاتا ہے اے متاع زیست
مگر مجھے سونے نہیں دیتیں یہ دسمبر کی راتیں
یہ دو ہی چیزیں جاں کا عذاب بنی ہیں ہمدم
اک ہر قدم پہ رقیب دوسری یہ دسمبر کی راتیں
تو اسی موسم میں مجھ کو تنہا چھوڑ گیا تھا
میرا گواہ ہے یہ چاند اور دسمبر کی راتیں
ہر ماہ کی راتیں اترتی ہیں میرے آنگن میں
جانے کیوں مجھے پاگل سا کر دیتی ہیں یہ دسمبر کی راتیں
میری کل محبت کا حاصل بس یہی ہے فیاض
بکھرے پھول تیز ہوائیں اور دسمبر کی راتیں
پھر تیری یادیں ہیں دل میں اور دسمبر کی راتیں
دن تو کسی طور کٹ ہی جاتا ہے اے متاع زیست
مگر مجھے سونے نہیں دیتیں یہ دسمبر کی راتیں
یہ دو ہی چیزیں جاں کا عذاب بنی ہیں ہمدم
اک ہر قدم پہ رقیب دوسری یہ دسمبر کی راتیں
تو اسی موسم میں مجھ کو تنہا چھوڑ گیا تھا
میرا گواہ ہے یہ چاند اور دسمبر کی راتیں
ہر ماہ کی راتیں اترتی ہیں میرے آنگن میں
جانے کیوں مجھے پاگل سا کر دیتی ہیں یہ دسمبر کی راتیں
میری کل محبت کا حاصل بس یہی ہے فیاض
بکھرے پھول تیز ہوائیں اور دسمبر کی راتیں
No comments:
Post a Comment