اسے کہنا دسمبر آگیا ہے
دسمبر کے گزرتے ہی برس ایک اور ماضی کی گپھا میں
ڈوب جائے گا
اسے کہنا دسمبر لوٹ آئےگا
مگرجو خون جسموں میں
سو جائے گا وہ نہ جاگے گا
اسے کہنا ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کی کہرے کی
دیواروں پر لرزاں ہے
اسے کہنا شگوفے ٹہنیوں پر سو رہے ہیں
اور ان پر برف کی چادر بچھی ہے
اسے کہنا اگر سورج نہ نکلے گا
تو برف کیسے پگھلے گی
اسے کہنا لوٹ آئے