ابھی ہجر کا قیام ہے اور دسمبر آن پہنچا ہے
یہ خبر شہر میں عام ہے دسمبر آن پہنچا ہے
آنگن میں اُتر آئی ہے مانوس سی خوشبو
یادوں کا اژدہام ہے ، دسمبر آن پہنچا ہے
خاموشیوں کا راج ہے ،خزاں تاک میں ہے
اداسی بھی بہت عام ہے ،دسمبر آن پہنچا ہے
تیرے آنے کی امید بھی ہو چکی معدوم
نئے برس کا اہتمام ہے ،دسمبر آن پہنچا ہے
خُنک رت میں تنہائی بھی چوکھٹ پہ کھڑی ہے
جاڑے کی اداس شام ہے ،دسمبر آن پہنچا ہے
تم آؤ تو مرے موسموں کی بھی تکمیل ہو جائے
نئے رُت تو سرِ بام ہے ، دسمبر آن پہنچا ہے