میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا

Ads

Sunday, January 1, 2012

کوئی بولے تو برا لگتا ہے



سر بازار ہے یاروں کی تلاش
جو گزرتا ہے خفا لگتا ہے

اتنا مانوس ہوں سناٹے سے
کوئی بولے تو برا لگتا ہے

اے نئے سال بتا، تُجھ ميں نيا پن کيا ہے؟




اے نئے سال بتا، تُجھ ميں نيا پن کيا ہے؟
ہر طرف خَلق نے کيوں شور مچا رکھا ہے

روشنی دن کی وہي تاروں بھري رات وہی
آج ہم کو نظر آتي ہے ہر ايک بات وہی

آسمان بدلا ہے افسوس، نا بدلی ہے زميں
ايک ہندسے کا بدلنا کوئي جدت تو نہيں

اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرينے تيرے
کسے معلوم نہيں بارہ مہينے تيرے

جنوري، فروري اور مارچ ميں پڑے گي سردي
اور اپريل، مئي اور جون ميں ہو گي گرمي

تيرا مَن دہر ميں کچھ کھوئے گا کچھ پائے گا
اپنی ميعاد بَسر کر کے چلا جائے گا

تو نيا ہے تو دکھا صبح نئي، شام نئی
ورنہ اِن آنکھوں نے ديکھے ہيں نئے سال کئی

بے سبب لوگ ديتے ہيں کيوں مبارک باديں
غالبا بھول گئے وقت کی کڑوي ياديں

تيری آمد سے گھٹی عمر جہاں سے سب کی
فيض نے لکھی ہے يہ نظم نرالے ڈھب کی

(فیض احمد فیض)
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Follow on Facebook