میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا

Ads

Wednesday, November 30, 2011



دسمبر میں چلے آؤ۔ ۔ ۔


قبل اس کے۔ ۔ ۔
دسمبر کی ہواؤں سے رگوں میں خون کی گردش ٹھہر جائے
جسم بے جان ہو جائے
تمہاری منتظر پلکیں جھپک جائیں
بسا جو خواب آنکھوں میں ہے وہ ارمان ہوجائے
برسوں کی ریاضت سے
جو دل کا گھر بنا ہے پھر سے وہ مکان ہو جائے
تمہارے نام کی تسبیح بھلادیں دھڑکنیں میری
یہ دل نادان ہو جائے
تیری چاہت کی خوشبو سے بسا آنگن جو دل کا ہے
وہ پھر ویران ہوجائے
قریب المرگ ہونے کا کوئی سامان ہوجائے
قبل اس کے۔ ۔ ۔
دسمبر کی یہ ننھی دھوپ کی کرنیں
شراروں کی طرح بن کر، میرا دامن جلا ڈالیں
بہت ممکن ہے
پھر دل بھی برف کی مانند پگھل جائے
ممکن پھر بھی یہ ہے جاناں۔ ۔ ۔
کہ تیری یاد بھی کہیں آہ بن کر نکل جائے
موسمِ دل بدل جائے ۔ ۔ ۔
یا پہلے کی طرح اب پھر دسمبر ہی نہ ڈھل جائے
!قبل اس کے۔ ۔ ۔
دسمبر اور ہم تیری راہوں میں بیٹھے تم کو یہ آواز دیتے ہیں
کہ تم ملنے چلے آؤ
دسمبر میں چلے آؤ

پھر دسمبر کی یکم آئی ہے


پھر دسمبر کی یکم آئی ہے اور وہی پرانی یخ بستہ راتیں
پھر تیری یادیں ہیں دل میں اور دسمبر کی راتیں

دن تو کسی طور کٹ ہی جاتا ہے اے متاع زیست
مگر مجھے سونے نہیں دیتیں یہ دسمبر کی راتیں

یہ دو ہی چیزیں جاں کا عذاب بنی ہیں ہمدم
اک ہر قدم پہ رقیب دوسری یہ دسمبر کی راتیں

تو اسی موسم میں مجھ کو تنہا چھوڑ گیا تھا
میرا گواہ ہے یہ چاند اور دسمبر کی راتیں

ہر ماہ کی راتیں اترتی ہیں میرے آنگن میں
جانے کیوں مجھے پاگل سا کر دیتی ہیں یہ دسمبر کی راتیں

میری کل محبت کا حاصل بس یہی ہے فیاض
بکھرے پھول تیز ہوائیں اور دسمبر کی راتیں

کہا تھا یہ دسمبر میں


دسمبر کے حوالے سے شاعری
-----------------------------
السلام وعليكم ورحمة الله وبركاته
ماہ دسمبر سال کا آخری مہینہ سردی کی شدت کے ساتھہ ساتھہ یادوں کے دریچہ بھی وا ہوجاتے ہیں۔


سود وزیاں کے حساب وکتاب کے مرحلے بھی آتے۔ ماہ دسمبر پر شعراء نے بہت کچھہ کہا ، پیش ہے ماہ دسمبر کے حوالے سے کچھہ کلام



****************


کہا تھا یہ دسمبر میں

ہمیں تم ملنے آؤ گے

دسمبر کتنے گزرے ہیں

تمہاری راہوں کو تکتے

نجانے کس دسمبر میں

تمہیں ملنے کو آنا ہے

ہماری تو دسمبر نے

بہت اُمیدیں توڑیں ہیں

بڑے سپنے بکھیرے ہیں

ہماری راہ تکتی منتظر پُر نم نگاہوں میں

ساون کے جو ڈیرے ہیں

دسمبر کے ہی تحفے ہیں

دسمبر پھر سے آیا ہے

جو تم اب بھی نہ آئے تو

پھر تم دیکھنا خود ہی

تمہاری یاد میں اب کے

اکیلے ہم نہ روئیں گے

ہمارا ساتھ دینے کو

ساون کے بھرے بادل

گلے مل مل کے روئیں گے

پھر اتنا پانی برسے گا

سمندر سہہ نہ پائے گا

کرو نہ ضد چلے آؤ

رکھا ہے کیا دسمبر میں

دلوں میں پیار ہو تو پھر

مہینے سارے اچھے ہیں

کسی بھی پیارے موسم میں

چپکے سے چلے آؤ

سجن اب مان بھی جاؤ

دسمبر تو دسمبر ہے

دسمبر کا کیا بھروسہ

دسمبر بیت ہی جائے گا۔


****************

ہمارے حال پر رویا دسمبر

ہمارے حال پر رویا دسمبر
وہ دیکھو ٹوٹ کر برسا دسمبر

گزر جاتا ہے سارا سال یوں تو
نہیں کٹتا مگر تنہا دسمبر

بھلا بارش سے کیا سیراب ہوگا
تمھارے وصل کا پیاسا دسمبر

وہ کب بچھڑا، نہیں اب یاد لیکن
بس اتنا علم ہے کہ تھا دسمبر

یوں پلکیں بھیگتی رہتی ہیں جیسے
میری آنکھوں میں آ ٹھہرا دسمبر

جمع پونجی یہی ہے عمر بھر کی
میری تنہائی اور میرا دسمبر

دسمبر جب بھی آتا ہے





دسمبر جب بھی آتا ہے
وہ پگلی۔۔۔۔۔
پھر سے بیتے موسموں کی
تلخیوں کو
یاد کرتی ہے
پرانا کارڈ پڑھتی ہے
کہ جس میں اُس نے
لکھا تھا
میں لوٹوں گا دسمبر میں

نئے کپڑے بناتی ہے
وہ سارا گھر سجاتی ہے
دسمبر کے ہر اک دن کو
وہ گن گن کر بتاتی ہے
جونہی 15 گزرتی ہے
وہ کچھہ کچھہ ٹوٹ جاتی ہے
مگر پھر بھی
پرانی البموں کو کھول کر
!!!ماضی بلاتی ہے
نہیں معلوم یہ اُس کو
کہ بیتے وقت کی خوشیاں
بہت تکلیف دیتی ہیں
محض دل کو جلاتی ہیں۔۔۔
یونہی دن بیت جاتے ہیں
دسمبر لوٹ جاتا ہے
مگر وہ خوش فہم لڑکی۔۔۔
دوبارہ سے کیلنڈر میں
دسمبر کے مہینے کے صفحےکو
موڑ کر، پھر سے
پھر سے
دسمبر کے سحر میں
ڈوب جاتی ہے
کہ آخر اُس نے لکھا تھا۔۔۔۔
میں لوٹوں گا دسمبر میں

Kash Aisa hota by Azra Naeem


Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Follow on Facebook