میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا
Saturday, January 8, 2011
دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کردے گا
دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کردے گا
وہ لمس میرے بدن کو گلاب کردے گا
قبائے جسم کے ہر تار سے گزرتا ہُوا
کرن کا پیار مجھے آفتاب کردے گا
جنوں پسند ہے دل اور تجھ تک آنے میں
بدن کو ناؤ،لُہو کو چناب کردے گا
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہارجاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا، اورلاجواب کردے گا
اَنا پرست ہے اِتنا کہ بات سے پہلے
وہ اُٹھ کے بند مری ہر کتاب کردے گا
سکوتِ شہرِ سخن میں وہ پُھول سا لہجہ
سماعتوں کی فضا خواب خواب کردے گا
اسی طرح سے اگر چاہتا رہا پیہم
سخن وری میں مجھے انتخاب کردے گا
مری طرح سے کوئی ہے جو زندگی ا پنی
تُمھاری یاد کے نام اِنتساب کردے گا
وہ تو خوشبوہے ہواؤں میں بکھرجائےگا
وہ تو خوشبوہے ہواؤں میں بکھرجائےگا
مسئلہ پھول کاہے پھول کدھرجائےگا
ہم توسمجھےتھےکہ ایک زخم ہےبھرجائےگا
کیاخبرتھی کہ رگ جاں میں اترجائےگا
وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتاہے
ایک جھونکاہےجوآئےگاگزرجائےگا
وہ جب آئےگاتوپھراس کی رفاقت کےلیے
موسم گل میرےآنگن میں ٹھہرجائےگا
آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہوگی
تیرا یہ پیار بھی دریاہے اترجائے گا
مجھ کو تہذیب کے برزخ کا بنایا وارث
جُرم یہ بھی مرے اجداد کے سر جائے گا
مسئلہ پھول کاہے پھول کدھرجائےگا
ہم توسمجھےتھےکہ ایک زخم ہےبھرجائےگا
کیاخبرتھی کہ رگ جاں میں اترجائےگا
وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتاہے
ایک جھونکاہےجوآئےگاگزرجائےگا
وہ جب آئےگاتوپھراس کی رفاقت کےلیے
موسم گل میرےآنگن میں ٹھہرجائےگا
آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہوگی
تیرا یہ پیار بھی دریاہے اترجائے گا
مجھ کو تہذیب کے برزخ کا بنایا وارث
جُرم یہ بھی مرے اجداد کے سر جائے گا
پروین شاکر
عجب پاگل سی لڑکی ہے
عجب پاگل سی لڑکی ہے
مجھے ہر خط میں لکھتی ہے
مجھے تم یاد کرتے ہو؟ تمھیں میں یاد آتی ہوں؟
مری باتیں ستاتی ہیں
مری نیندیں جگاتی ہیں
مری آنکھیں رلاتی ہیں؟
مجھے ہر خط میں لکھتی ہے
مجھے تم یاد کرتے ہو؟ تمھیں میں یاد آتی ہوں؟
مری باتیں ستاتی ہیں
مری نیندیں جگاتی ہیں
مری آنکھیں رلاتی ہیں؟
دسمبر کی سنہری دھوپ میں اب بھی ٹہلتے ہو
کسی خاموش رستے سے کوئی آواز آتی ہے؟
ٹھٹہرتی سرد راتوں میں تم اب بھی چھت پہ جاتے ہو
فلک کے سب ستاروں کو مری باتیں سناتے ہو
کتابوں سے تمھارے عشق میں کوئی کمی آئی
یا میری یاد کی شدت سے آنکھوں میں نمی آئی
عجب پاگل سی لڑکی ہے
مجھے ہر خط میں لکھتی ہے
جوابااس کو لکھتا ہوں
مری مصروفیت دیکھو
سحرسے شام آفس میں چراغ عمر جلتا ہے
پھر اس کے بعد دنیا کی کئی مجبوریاں پاؤں میں بیڑی ڈال رکھتی ہیں
مجھے بے فکر، چاہت سے بھرے سپنے نہیں دکھتے
ٹہلنے، جاگنے، رونے کی فرصت ہی نہیں ملتی
ستاروں سے ملے عرصہ ہوا ناراض ہوں شاید
کتابوں سے شغف میرا ابھی ویسے ہی قائم ہے
بس اب اتنا ہوا ہے میں انھیں عرصہ میں پڑھتا ہوں
تمھیں کس نے کہا پگلی تمھیں میں یاد کرتا ہوں؟
کہ میں خود کو بھلانے کی مسلسل جستجو میں ہوں
تمھیں نہ یاد آنے کی مسلسل جستجو میں ہوں
مگر یہ جستجو میری بہت ناکام رہتی ہے
مرے دن رات میں اب بھی تمھاری شام رہتی ہے
مرے لفظوں کی ہر مالا تمھارے نام رہتی ہے
تمھیں کس نے کہا پگلی مجھے تم یاد آتی ہو؟
پرانی بات ہو جو لوگ اکثر گنگناتے ہیں
انھیں ہم یاد کرتے ہیں جنھیں ہم بھول جاتے ہیں
عجب پاگل سی لڑکی ہو
مری مصروفیت دیکھو
تمھیں دل سے بھلاؤں تو تمھاری یاد آئے نا!
تمھیں دل سے بھلانے کی مجھے فرصت نہیں ملتی
اور اس مصروف جیون میں
تمھارے خط کا اک جملہ
تمھیں میں یاد آتی ہوں
مری چاہت کی شدت میں کمی ہونے نہیں دیتا
بہت راتیں جگاتاہے مجھے سونے نہیں دیتا
سو اگلی بار اپنے خط میں یہ جملہ نہیں لکھنا!
عجب پاگل سی لڑکی ہے، مجھے پھر بھی یہ کہتی ہے
مجھے تم یاد کرتے ہو؟ تمھیں میں یاد آتی ہوں؟
کسی خاموش رستے سے کوئی آواز آتی ہے؟
ٹھٹہرتی سرد راتوں میں تم اب بھی چھت پہ جاتے ہو
فلک کے سب ستاروں کو مری باتیں سناتے ہو
کتابوں سے تمھارے عشق میں کوئی کمی آئی
یا میری یاد کی شدت سے آنکھوں میں نمی آئی
عجب پاگل سی لڑکی ہے
مجھے ہر خط میں لکھتی ہے
جوابااس کو لکھتا ہوں
مری مصروفیت دیکھو
سحرسے شام آفس میں چراغ عمر جلتا ہے
پھر اس کے بعد دنیا کی کئی مجبوریاں پاؤں میں بیڑی ڈال رکھتی ہیں
مجھے بے فکر، چاہت سے بھرے سپنے نہیں دکھتے
ٹہلنے، جاگنے، رونے کی فرصت ہی نہیں ملتی
ستاروں سے ملے عرصہ ہوا ناراض ہوں شاید
کتابوں سے شغف میرا ابھی ویسے ہی قائم ہے
بس اب اتنا ہوا ہے میں انھیں عرصہ میں پڑھتا ہوں
تمھیں کس نے کہا پگلی تمھیں میں یاد کرتا ہوں؟
کہ میں خود کو بھلانے کی مسلسل جستجو میں ہوں
تمھیں نہ یاد آنے کی مسلسل جستجو میں ہوں
مگر یہ جستجو میری بہت ناکام رہتی ہے
مرے دن رات میں اب بھی تمھاری شام رہتی ہے
مرے لفظوں کی ہر مالا تمھارے نام رہتی ہے
تمھیں کس نے کہا پگلی مجھے تم یاد آتی ہو؟
پرانی بات ہو جو لوگ اکثر گنگناتے ہیں
انھیں ہم یاد کرتے ہیں جنھیں ہم بھول جاتے ہیں
عجب پاگل سی لڑکی ہو
مری مصروفیت دیکھو
تمھیں دل سے بھلاؤں تو تمھاری یاد آئے نا!
تمھیں دل سے بھلانے کی مجھے فرصت نہیں ملتی
اور اس مصروف جیون میں
تمھارے خط کا اک جملہ
تمھیں میں یاد آتی ہوں
مری چاہت کی شدت میں کمی ہونے نہیں دیتا
بہت راتیں جگاتاہے مجھے سونے نہیں دیتا
سو اگلی بار اپنے خط میں یہ جملہ نہیں لکھنا!
عجب پاگل سی لڑکی ہے، مجھے پھر بھی یہ کہتی ہے
مجھے تم یاد کرتے ہو؟ تمھیں میں یاد آتی ہوں؟
بچپن کے دکھ کتنے اچھے ھوتے تھے
گرميوں ميں جب سب گھر والے سو جاتےتھے
دھوپ کی انگلی تھام کے ھم چل پڑتے تھے
ھميں پرندے کتنے پيار سے تکتے تھے
ھم جب ان کے سامنے پانی رکھتے تھے
موت ھميں اپنی آغوش ميں چھپاتی تھی
قبرستان ميں جا کر کھيلا کرتے تھے
رستے ميں اک ان پڑھ دريا پڑتا تھا
جس سے گزر کر پڑھنے جايا کرتے تھے
جيسے سورج آ کر پياس بجھائے گا
صبح سويرے ايسے پانی بھرتے تھے
اڑنا ھم کو اتنا اچھا لگتا تھا
چڑياں پکڑ کر ان کو چوما کرتے تھے
تتلياں ھم پر بيٹھا کرتيں تھيں
ھم پھولوں سے اتنے ملتے جلتے تھے
ملی تھی يہ جوانی ھم کو رستے ميں
ھم تو گھر سے بچپن اوڑھ کے نکلے تھے
دھوپ کی انگلی تھام کے ھم چل پڑتے تھے
ھميں پرندے کتنے پيار سے تکتے تھے
ھم جب ان کے سامنے پانی رکھتے تھے
موت ھميں اپنی آغوش ميں چھپاتی تھی
قبرستان ميں جا کر کھيلا کرتے تھے
رستے ميں اک ان پڑھ دريا پڑتا تھا
جس سے گزر کر پڑھنے جايا کرتے تھے
جيسے سورج آ کر پياس بجھائے گا
صبح سويرے ايسے پانی بھرتے تھے
اڑنا ھم کو اتنا اچھا لگتا تھا
چڑياں پکڑ کر ان کو چوما کرتے تھے
تتلياں ھم پر بيٹھا کرتيں تھيں
ھم پھولوں سے اتنے ملتے جلتے تھے
ملی تھی يہ جوانی ھم کو رستے ميں
ھم تو گھر سے بچپن اوڑھ کے نکلے تھے
بچپن کے دکھ کتنے اچھے ھوتے تھے
تب تو صرف کھلونے ٹوٹا کرتے تھے
وہ خوشياں بھی جانے کيسی خوشياں تھيں
تتلي کے پر نوچ کے اچھلا کرتے تھے
مار کے پاؤں، ھم بارش کے پانی ميں
اپنی ناؤ کو آپ ڈبويا کرتے تھے
چھوٹے تھے تو مکرو فريب بھی چھوٹے تھے
دانہ ڈال کے چڑيا پکڑا کرتے تھے
اب تو اک آنسو بھی رسوا کر جاتا ھے
بچپن ميں جی بھر کے رويا کرتے تھے
خُوشبو کے اڑتے ہی کيوں مرجھايا پھول
کتنے بھولے پن سے پوچھا کرتے تھے
کھيل کود کے دن بھر اپنی ٹولی ميں
رات کو ماں کی گود ميں سويا کرتے تھے
تب تو صرف کھلونے ٹوٹا کرتے تھے
وہ خوشياں بھی جانے کيسی خوشياں تھيں
تتلي کے پر نوچ کے اچھلا کرتے تھے
مار کے پاؤں، ھم بارش کے پانی ميں
اپنی ناؤ کو آپ ڈبويا کرتے تھے
چھوٹے تھے تو مکرو فريب بھی چھوٹے تھے
دانہ ڈال کے چڑيا پکڑا کرتے تھے
اب تو اک آنسو بھی رسوا کر جاتا ھے
بچپن ميں جی بھر کے رويا کرتے تھے
خُوشبو کے اڑتے ہی کيوں مرجھايا پھول
کتنے بھولے پن سے پوچھا کرتے تھے
کھيل کود کے دن بھر اپنی ٹولی ميں
رات کو ماں کی گود ميں سويا کرتے تھے
کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلا
کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلا
ہم ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا
ہے شوق سفر ایسا اک عمر ہوئی ہم نے
منزل بھی نہیں پائی اور راستہ بھی نہیں بدلا
مکمل کچھ نہیں ہوتا
مکمل کچھ نہیں ہوتا
اسے کہنا
مکمل کچھ نہیں ہوتا
ملن بھی نامکمل ہے
جدائی بھی ادھوری ہے
یہاں اک موت پوری ہے
اسے کہنا اداسی جب رگوں میں
خون کی مانند اترتی ہے
بہت نقصان کرتی ہے
اسے کہنا بساط عشق پہ
جب موت ہوتی ہے
دکھوں کے شہر میں
جب رات ہوتی ہے
اسے کہنا
مکمل بس "خدا" کی
ذات ہوتی ہے
مر بھی جاؤں تو مت رونا
خود کلامی
مر بھی جاؤں تو مت رونا
اپنا ساتھ نہ چھوٹے گا
تیری میری چاہ کا بندھن
موت سے بھی نہ ٹوٹے گا
میں بادل کا بھیس بدل کر
تجھ سے ملنے آؤں گا
تیرے گھر کی سونی چھت پر
غم کے پھول اگاؤں گا
جب تو اکیلی بیٹھی ہوگی
تجھ کو خوب رلاؤں گا
مر بھی جاؤں تو مت رونا
اپنا ساتھ نہ چھوٹے گا
تیری میری چاہ کا بندھن
موت سے بھی نہ ٹوٹے گا
میں بادل کا بھیس بدل کر
تجھ سے ملنے آؤں گا
تیرے گھر کی سونی چھت پر
غم کے پھول اگاؤں گا
جب تو اکیلی بیٹھی ہوگی
تجھ کو خوب رلاؤں گا
Subscribe to:
Posts (Atom)