میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا

Ads

Monday, October 8, 2012

لوٹ کر پہاڑوں سے اب صدائیں آتی ہیں


لوٹ کر پہاڑوں سے اب صدائیں آتی ہیں
خامشی ہے بستی میں، ڈوب ڈوب جاتی ہیں
لال سب کے سوئے ہیں پتھروں کے ڈھیروں میں
لوریاں یہ مائیں اب کیوں نہیں سناتی ہیں
بھائیوں کی لاشوں کو دیکھتی ہیں بہنیں بھی
دل میں درد اٹھتا ہے اور بیٹھ جاتی ہیں
حسرتیں رلاتی ہیں اُن خراب حالوں کو
خواہشیں امیدوں کے دیپ بھی جلاتی ہیں
زلزلے نے لائی ہیں وہ قیامتیں لوگو
جن کو سن کے روحیں بھی کانپ کانپ جاتی ہیں
آس پر ہی قائم ہے یہ نظام ہستی کا
دیکھ لو کہ پھر چڑیاں گھونسلے بناتی ہیں
 

نوحہ کیسے لکھوں گا!

آپ مجھ سے کہتے ہیں
اُن کا نوحہ لکھوں میں!
آپ کے تصرّف میں
لفظ ہوں اگر ایسے
جو کہ سب نے دیکھا ہے
وہ بیان کر پائیں
مجھ کو بھی عطا کیجے
میں تو خود کئی دن سے
اُس مہیب ملبے کے
بوجھ سے نہیں نکلا
اور ہاتھ میرے بھی کٹ گئے ہیں، ایسے میں
نوحہ کیسے لکھوں گا!

وَمَا اَدرٰ کَ ماالقاَرِعَہَ


وَمَا اَدرٰ کَ ماالقاَرِعَہَ

(آٹھ اکتوبر کے زلزے کے تناظر میں)


بتا اے اِبنِ آدم!

کیا خطا تجھ سے ہوئی تھی؟
کہ جب تو آٹھ اکتوبر کو
شب بھر چین سے سو کر اُٹھا تو
یوں لگا جیسے ابد کی نیند سے تجھ کو کسی ”القَارِعَہ“ نے خود جگایا ہو

تو پھر تجھ کو بھی یہ ادراک ہو جانے لگا ہو

کہ یہ ”القَارِعَہ“ کیا ہے؟

سُنا ہے چند لمحوں کے لئے

سارے علاقے کے پہاڑ اُڑنے لگے
اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے مکیں
اپنے گھروں کے ڈھیر میں اوندھے پڑے تھے

ہر اک بستی، ہر اک مکتب

مساجد، مدرسے اور دفتری دیوار و در
یوں اپنی چھت کے نیچے خود ہی آکر دب چکے تھے
کہ جیسے مالکِ کُل نے تباہی کے فرشتے کو
اشارہ کر دیا ہو

اور اُس نے حکم پاتے ہی

مظفر باد، بالا کوٹ، اَلائی ، مانسہرے اور
ان سے ملحقہ سارے علاقوں کے
مہکتے گلستانوں میں
اجل کی آگ بھر دی ہو

تمہیں معلوم کیا اے ابنِ آدم۔۔۔!


تمہیں معلوم کیا وہ آگ کیا تھی؟

وہ نارۘ حامیہ کا اک شرارہ تھی
جسے معصوم مٹی سہہ نہ پائی
اور بہت ہی مضطرب، بے چین ہو کر
کروٹیں لینے لگی

کروٹیں ایسی کہ چند لمحوں میں

سارے شہر غم کی راکھ بن کر بجھ گئے ہیں!

زلزلہ کیا ہوا



پوچھ درویش جی زلزلہ کیا ہوا
اک قیامت ہوئی زلزلہ کیا ہوا
ذہن مفلوج ہے سوجھ کیا بوجھ کیا
رہ گئی شاعری زلزلہ کیا ہوا
اشک تھمتے نہیں ، پاؤں جمتے نہیں
نیند بھی اُڑ گئی ، زلزلہ کیا ہوا
کتنے افراد سے دیکھتے دیکھتے
یاں پناہ چھن گئی ، زلزلہ کیا ہوا
عمر بھر کی کمائی یہاں دفعتاً
خاک میں دب گئی ، زلزلہ کیا ہوا
ماؤں سے پُوت اُن کے جدا ہو گئے
مامتا رو پڑی ، زلزلہ کیا ہوا
شیرخواروں سے مائیں جدا ہو گئیں
گود بھی چھن گئی ، زلزلہ کیا ہوا
یاں محلات سارے کھنڈر بن گئے
ڈھیر کٹیا ہوئی ، زلزلہ کیا ہوا
کتنے مکتب گرے علم والے اٹھے
روشنی کم ہوئی زلزلہ کیا ہوا
کیسے حالات میں کن سوالات میں
گھر گیا آدمی زلزلہ کیا ہوا
اہلِ ایمان کی اہلِ ایقان کی
آزمائش ہوئی زلزلہ کیا ہوا
میرے سینے سے جینے کی درویش جی
آرزو بجھ گئی زلزلہ کیا ہوا

ابھی کچھ ہی دیر پہلے




ابھی کچھ ہی دیر پہلے


ابھی کچھ ہی دیر پہلے، یہاں خواب پل رہے تھے
یہاں زندگی تھی روشن، یہ چراغ جل رہے تھے

یہیں پھول کھل رہے تھے، یہیں کھل رہی تھیں کلیاں
ابھی کچھ ہی دیر پہلے، یہاں تتلیاں تھیں رقصاں

تو نہ جانے کیا ہُوا یہ کہ لرز اٹھی زمیں بھی
پھٹے پر بَتوں کے سینے ، نہ پناہ تھی کہیں بھی

ابھی کچھ ہی دیر پہلے، یُوں ہُوا نزولِ آفت
تھے وہ بد نصیب لمحے کہ گزر گئی قیامت

ہے فلک ہی اوڑھنے کو، ہے زمیں ہی اب بچھونا
کہیں گم ہُوا ہے بچّہ، کہیں گم ہُوا کھلونا

کہیں لالِ گم شدہ کی یوں تلاش میں ہے ممتا
نہ ہی سر پہ ہے دوپٹہ نہ ہی پیر میں ہے جوتا

ابھی کچھ ہی دیرپہلے، جو کھنڈر ہے مدرسہ تھا
وہ دبی ہوئی ہے تختی، وہ پڑا ہوا ہے بستہ

کسی پھول سے بدن پرہیں سجی ہوئی خراشیں
کہیں بوڑھا باپ بیٹوں کی اُٹھا رہا ہے لا شیں

ابھی ان گنت ہیں لاشیں، ابھی ان گنت ہیں زخمی
سنو! آرہی ہے پیہم، یہ صدا مدد مدد کی

چلو ہم بھی چل کے خیموں کی بسائیں کوئی بستی
چلو، اُن کے دُکھ بٹائیں، چلو ، اُن کو دیں تسلّی

چلو، اشک اُن کے پونچھیں، چلو خواب کچھ سجائیں
چلو، تِیرہ بستیوں میں کوئی دیپ ہی جلائیں

اب یاد نہیں کس کو کہاں دفن کیا تھا



پانی تھا میسر نہ کفن تھا نہ دعائیں
بے طور ہر اک پیر و جواں دفن کیا تھا
ملبے سے نکالے تھے کئی پھول کئی خواب
اب یاد نہیں کس کو کہاں دفن کیا تھا









Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Follow on Facebook