لوٹ کر پہاڑوں سے اب صدائیں آتی ہیں
خامشی ہے بستی میں، ڈوب ڈوب جاتی ہیں
لال سب کے سوئے ہیں پتھروں کے ڈھیروں میں
لوریاں یہ مائیں اب کیوں نہیں سناتی ہیں
بھائیوں کی لاشوں کو دیکھتی ہیں بہنیں بھی
دل میں درد اٹھتا ہے اور بیٹھ جاتی ہیں
حسرتیں رلاتی ہیں اُن خراب حالوں کو
خواہشیں امیدوں کے دیپ بھی جلاتی ہیں
زلزلے نے لائی ہیں وہ قیامتیں لوگو
جن کو سن کے روحیں بھی کانپ کانپ جاتی ہیں
آس پر ہی قائم ہے یہ نظام ہستی کا
دیکھ لو کہ پھر چڑیاں گھونسلے بناتی ہیں