میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا

Ads

Saturday, January 7, 2012

میں سال کا آخری سورج ہوں


میں سال کا آخری سورج ہوںمیں سب کے سامنے ڈوب چلاکوئی کہتا ہے میں چل نہ سکاکوئی کہتا ہے کیا خُوب چلامیں سب کے سامنے ڈوب چلا...اس رخصتِ عالم میں مجھ کواک لمحہ رخصت مل نہ سکیجس شب کو ڈھونڈنے نکلا تھااس شب کی چاہت مل نہ سکییہ سال کہاں، اک سال کا تھایہ سال تو اک جنجال کا تھایہ زیست جو اک اک پَل کی ہےیہ اک اک پَل سے بنتی ہےسب اک اک پَل میں جیتے ہیںاور اک اک پَل میں مرتے ہیںیہ پَل ہے میرے مرنے کامیں سب کے سامنے ڈوب چلا
اے شام مجھے تُو رخصت کر
تُو اپنی حد میں رہ لیکن
دروازے تک تو چھوڑ مجھے
وہ صبح جو کل کو آئے گی
اک نئی حقیقت لائے گی
تُو اُس کے لئے، وہ تیرے لئے
اے شا،م! تُو اتنا جانتی ہے
اک صبحِ امید ، آثار میں ہے
اک در تیری دیوار میں ہے
اک صبحِ قیامت آنے تک
بس میرے لیے بس میرے لیےیہ وقت ہی وقتِ قیامت ہےاب آگے لمبی رخصت ہےاے شام جو شمعیں جلاؤ تماک وعدہ کرو ان شمعوں سےجو سورج کل کو آئے یہاںوہ آپ نہ پَل پَل جیتا ہووہ آپ نہ پَل پَل مرتا ہووہ پُورے سال کا سورج ہواے شام مجھے تو رخصت کر

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Follow on Facebook