میں سال کا آخری سورج ہوںمیں سب کے سامنے ڈوب چلاکوئی کہتا ہے میں چل نہ سکاکوئی کہتا ہے کیا خُوب چلامیں سب کے سامنے ڈوب چلا...اس رخصتِ عالم میں مجھ کواک لمحہ رخصت مل نہ سکیجس شب کو ڈھونڈنے نکلا تھااس شب کی چاہت مل نہ سکییہ سال کہاں، اک سال کا تھایہ سال تو اک جنجال کا تھایہ زیست جو اک اک پَل کی ہےیہ اک اک پَل سے بنتی ہےسب اک اک پَل میں جیتے ہیںاور اک اک پَل میں مرتے ہیںیہ پَل ہے میرے مرنے کامیں سب کے سامنے ڈوب چلا
اے شام مجھے تُو رخصت کر
تُو اپنی حد میں رہ لیکن
دروازے تک تو چھوڑ مجھے
وہ صبح جو کل کو آئے گی
اک نئی حقیقت لائے گی
تُو اُس کے لئے، وہ تیرے لئے
اے شا،م! تُو اتنا جانتی ہے
اک صبحِ امید ، آثار میں ہے
اک در تیری دیوار میں ہے
اک صبحِ قیامت آنے تک
بس میرے لیے بس میرے لیےیہ وقت ہی وقتِ قیامت ہےاب آگے لمبی رخصت ہےاے شام جو شمعیں جلاؤ تماک وعدہ کرو ان شمعوں سےجو سورج کل کو آئے یہاںوہ آپ نہ پَل پَل جیتا ہووہ آپ نہ پَل پَل مرتا ہووہ پُورے سال کا سورج ہواے شام مجھے تو رخصت کر
No comments:
Post a Comment