میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا

Ads

Saturday, January 7, 2012

پردیس میں رہنے والے


پردیس میں رہنے والے
 

جو گھر سے دُور ہوتے ہیں
بہت مجبُور ہوتے ہیں
کبھی باغوں میں سوتے ہیں
کبھی چھپ چھپ روتے ہیں
غیروں کو یاد کرتے ہیں
پھر فریاد کرتے ہیں
مگر جو بے سہارا ہوں
غیروں سے بے کنارا ہوں
اُنہیں گھر کون دیتا ہے
یہ خطرہ کون لیتا ہے
بڑی مشکل سے ایک کمرہ
جہاں کوئی نہ ہو رہتا
نگر سے پار ملتا ہے
بہت بیکار ملتا ہے
تو پھر دو تین ہم جیسے
ملتے ہیں سب پیاسے
اور آپس میں یہ کہتے ہیں
کہ مل جُل کر ہی رہتے ہیں
کوئی کھانا بنائے گا
کوئی جھاڑو لگائے گا
کوئی دھوئے گا سب کپڑے
تو رہ لیں گے بڑے سُکھ سے
مگر گرمی بھری راتیں
تپیش آلود سوغاتیں
اور اُوپر سے عجیب کمرہ
گُھٹن اور حبس کا پہرہ
تھکن سے چُور ہوتے ہیں
سکُون سے دُور ہوتے ہیں
بہت جی چاہتا ہے جب
کہ ماں کو بھیج دے یارب
جو اپنی گود میں لے کر
ہمیں ٹھنڈی ہوا دے کر
سلا دے نیند کچھ ایسی
کہ ٹوٹے پھر نہ ایک پل بھی
مگر کچھ بھی نہیں ہوتا
تو کر لیتے ہیں سمجھوتہ
کوئی دل میں بِلکتا ہے
کوئی پہروں سُلگتا ہے
جب اپنا کام کر کے ہم
پلٹتے ہیں تو آنکھیں نَم
مکان ویران ملتا ہے
بہت بے جان ملتا ہے
کوشش مدھوم ہوتی ہے
فضا مغموم رہتی ہے
بڑے رنجور کیوں نہ ہوں
بڑے مجبور کیوں نہ ہوں
اوائل میں مہینے کے
سب اپنے خون پسینے کے
جو پیسے جوڑ لیتے ہیں
گھروں کو بھیج دیتے ہیں
اور اپنے خط میں لکھتے ہیں
ہم اپنا دھیان رکھتے ہیں
بڑی خوبصورت گاڑیاں ہیں
ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہیں
ہم یہاں بہت خوش رہتے ہیں
جبھی تو واپس نہیں آتے ہیں

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Follow on Facebook