صبحِ عید کی دستک پھر سنائی دی ہے
جی چاہتا ہے در نہ کھولوں اس کیلئے
اسے کہہ دوں کسی اور نگر کو جائے
اسے بتا دوں خستہ حال ہوں ابھی
روزِ عید تجھے خوش آمدید کہوں تو کیسے۔۔؟
روزِ عید! میرے دکھ لا دوا ہیں ابھی!
کرب چہروں پہ آویزاں ہے خزاؤں کی طرح
میرے شہروں پر جنگ کے مہیب سائے ہیں
کتنی بستیاں بارود نے اجاڑ ڈالی ہیں
جسم وجاں پر کتنے ہی عذاب آئے ہیں
بغداد و بصرہ نوحہ کناں نظر آئے ہیں
تازہ لہو موصل میں رواں ہے ابھی
وہ قندھار کا مرد جری بھی لوٹ کر نہیں آیا ہے
قابل و قندوز کی سسکیاں ہیں فضاوں میں ابھی
روز عید تجھے خوش آمدید کہوں تو کیسے۔ ۔؟
روز عید میرے دکھ لا دوا ہیں ابھی!
میرے زخموں سے لہو رس رہا ہے
بڑی شدت کا ان میں درد اٹھتا ہے
لمحہ لمحہ مقتلوں میں بدن کٹتے ہیں
گھر جلتے ہیں اور ان سے دھواں اٹھتا ہے
ابو غریب گوانتانامو کے عقوبت خانوں میں
درندگی کا راج ہےشیطان رقصاں ہے ابھی
سر بازار رسوا ہوئیں عفت ماب بیٹیاں
کسی محمد بن قاسم کو پکارتی ہیں ابھی
روزِعید تجھے خوش آمدید کہوں تو کیسے۔ ۔؟
روزِ عید میرے دکھ لا دوا ہیں ابھی!
کشمیر شعلوں میں گھرا دکھائی دیتا ہے
فریادوں کا شور ہر جانب سنائی دیتا ہے
مسجد اقصیٰ کے آنسو دلوں پہ گرتے ہیں
چیچنیا ظلم کی دلدل میں دکھائی دیتا ہے
مہاجر کپمپ گھروں میں نہیں بدلے ہیں
رفح و غزہ میں اک حشر بپا ہے ابھی
روزِعید تجھے خوش آمدید کہوں تو کیسے۔ ۔؟
روزِعید میرے دکھ لا دوا ہیں ابھی!
ایسے سنگلاخ دکھ کے رویں تو سمندر بھر جائیں
لیکن آنکھوں کے جزیرے میں اک آنسو بھی نہیں
میرے مظلوم دھوپ میں کھڑے ہیں بے بس
اور دور تلک سایہ دیوار بھی نہیں
روزِعید مجھ میں سکت نہیں کے مناؤں تجھ کو
میرے حوصلے کی فصیلوں میں دراڑیں ہیں ابھی
تن فگار منتظر ہیں مسیحائی کے
عدو کے تیر سینے میں ترازو ہیں ابھی
روز عید تجھے خوش آمدید کہوں تو کیسے۔ ۔؟
روز عید میرے دکھ لا دوا ہیں ابھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!