میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا

Ads

Monday, October 8, 2012

ابھی کچھ ہی دیر پہلے




ابھی کچھ ہی دیر پہلے


ابھی کچھ ہی دیر پہلے، یہاں خواب پل رہے تھے
یہاں زندگی تھی روشن، یہ چراغ جل رہے تھے

یہیں پھول کھل رہے تھے، یہیں کھل رہی تھیں کلیاں
ابھی کچھ ہی دیر پہلے، یہاں تتلیاں تھیں رقصاں

تو نہ جانے کیا ہُوا یہ کہ لرز اٹھی زمیں بھی
پھٹے پر بَتوں کے سینے ، نہ پناہ تھی کہیں بھی

ابھی کچھ ہی دیر پہلے، یُوں ہُوا نزولِ آفت
تھے وہ بد نصیب لمحے کہ گزر گئی قیامت

ہے فلک ہی اوڑھنے کو، ہے زمیں ہی اب بچھونا
کہیں گم ہُوا ہے بچّہ، کہیں گم ہُوا کھلونا

کہیں لالِ گم شدہ کی یوں تلاش میں ہے ممتا
نہ ہی سر پہ ہے دوپٹہ نہ ہی پیر میں ہے جوتا

ابھی کچھ ہی دیرپہلے، جو کھنڈر ہے مدرسہ تھا
وہ دبی ہوئی ہے تختی، وہ پڑا ہوا ہے بستہ

کسی پھول سے بدن پرہیں سجی ہوئی خراشیں
کہیں بوڑھا باپ بیٹوں کی اُٹھا رہا ہے لا شیں

ابھی ان گنت ہیں لاشیں، ابھی ان گنت ہیں زخمی
سنو! آرہی ہے پیہم، یہ صدا مدد مدد کی

چلو ہم بھی چل کے خیموں کی بسائیں کوئی بستی
چلو، اُن کے دُکھ بٹائیں، چلو ، اُن کو دیں تسلّی

چلو، اشک اُن کے پونچھیں، چلو خواب کچھ سجائیں
چلو، تِیرہ بستیوں میں کوئی دیپ ہی جلائیں

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Follow on Facebook