میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا

Ads

Wednesday, October 10, 2012

بہت مصروف رہتے ہو

بہت مصروف رہتے ہو
نہیں فرصت ذرا تم کو

بہت سے دوست ایسے ہیں
جنہیں ملنا ملانا ہے

کئی دنیا کی رسمیں ہیں
جنہیں تم نے نبھانا ہے

ادھورے کام ہیں ڈھیروں
جنہیں اب ختم کرنا ہے

مگر کیا ان ضروری کاموں کی فہرست میں تم نے
مجھے ملنا، مجھے تکنا نہیں لکھا

کیا ان کاموں کے آخر سے بھی آخر میں
میرا درجہ نہیں آتا

بہت دشوار ہے میرے لیے اس کرب کو سہنا
نہیں ممکن مگر اس درد کا اب دل میں ہی رہنا

اگر فرصت ہو تو سوچو
جنہیں پوروں سے چنتے تھے
وہ آنسو رُلتے جاتے ہیں

جسے تم جان کہتے تھے
اگر وہ جان ہی نا ہو

تو پھر پھولوں کی خوشبو لے کر آنا بھی تو کیا آنا
کہ مٹی کی لحد پر بیٹھ کر واپس بلانے سے 
کوئی بھی آ نہیں جاتا

جو دنیا میں کسی کا غم نہ بانٹے، ساتھی وہ کیسا
کہ پلکوں کی گھنی جھالر کے گرنے پر
اسے رونا، بلانا ، وقت کو الزام دے دینا

بڑی فرسودہ باتیں ہیں
کہ تم تو جانتے ہوگے


گرا آنسو، گیا لمحہ اور پلکوں جا گرا پردہ
دوبارہ مڑ نہیں سکتا

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Follow on Facebook