بہت مصروف رہتے ہو
نہیں فرصت ذرا تم کو
بہت سے دوست ایسے ہیں
جنہیں ملنا ملانا ہے
کئی دنیا کی رسمیں ہیں
جنہیں تم نے نبھانا ہے
ادھورے کام ہیں ڈھیروں
جنہیں اب ختم کرنا ہے
مگر کیا ان ضروری کاموں کی فہرست میں تم نے
مجھے ملنا، مجھے تکنا نہیں لکھا
کیا ان کاموں کے آخر سے بھی آخر میں
میرا درجہ نہیں آتا
بہت دشوار ہے میرے لیے اس کرب کو سہنا
نہیں ممکن مگر اس درد کا اب دل میں ہی رہنا
اگر فرصت ہو تو سوچو
جنہیں پوروں سے چنتے تھے
وہ آنسو رُلتے جاتے ہیں
جسے تم جان کہتے تھے
اگر وہ جان ہی نا ہو
تو پھر پھولوں کی خوشبو لے کر آنا بھی تو کیا آنا
کہ مٹی کی لحد پر بیٹھ کر واپس بلانے سے
کوئی بھی آ نہیں جاتا
جو دنیا میں کسی کا غم نہ بانٹے، ساتھی وہ کیسا
کہ پلکوں کی گھنی جھالر کے گرنے پر
اسے رونا، بلانا ، وقت کو الزام دے دینا
بڑی فرسودہ باتیں ہیں
کہ تم تو جانتے ہوگے
گرا آنسو، گیا لمحہ اور پلکوں جا گرا پردہ
دوبارہ مڑ نہیں سکتا
No comments:
Post a Comment