پوچھ درویش جی زلزلہ کیا ہوا
اک قیامت ہوئی زلزلہ کیا ہوا
ذہن مفلوج ہے سوجھ کیا بوجھ کیا
رہ گئی شاعری زلزلہ کیا ہوا
اشک تھمتے نہیں ، پاؤں جمتے نہیں
نیند بھی اُڑ گئی ، زلزلہ کیا ہوا
کتنے افراد سے دیکھتے دیکھتے
یاں پناہ چھن گئی ، زلزلہ کیا ہوا
عمر بھر کی کمائی یہاں دفعتاً
خاک میں دب گئی ، زلزلہ کیا ہوا
ماؤں سے پُوت اُن کے جدا ہو گئے
مامتا رو پڑی ، زلزلہ کیا ہوا
شیرخواروں سے مائیں جدا ہو گئیں
گود بھی چھن گئی ، زلزلہ کیا ہوا
یاں محلات سارے کھنڈر بن گئے
ڈھیر کٹیا ہوئی ، زلزلہ کیا ہوا
کتنے مکتب گرے علم والے اٹھے
روشنی کم ہوئی زلزلہ کیا ہوا
کیسے حالات میں کن سوالات میں
گھر گیا آدمی زلزلہ کیا ہوا
اہلِ ایمان کی اہلِ ایقان کی
آزمائش ہوئی زلزلہ کیا ہوا
میرے سینے سے جینے کی درویش جی
آرزو بجھ گئی زلزلہ کیا ہوا
No comments:
Post a Comment