وَمَا اَدرٰ کَ ماالقاَرِعَہَ
(آٹھ اکتوبر کے زلزے کے تناظر میں)
بتا اے اِبنِ آدم!
کیا خطا تجھ سے ہوئی تھی؟
کہ جب تو آٹھ اکتوبر کو
شب بھر چین سے سو کر اُٹھا تو
یوں لگا جیسے ابد کی نیند سے تجھ کو کسی ”القَارِعَہ“ نے خود جگایا ہو
تو پھر تجھ کو بھی یہ ادراک ہو جانے لگا ہو
کہ یہ ”القَارِعَہ“ کیا ہے؟
سُنا ہے چند لمحوں کے لئے
سارے علاقے کے پہاڑ اُڑنے لگے
اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے مکیں
اپنے گھروں کے ڈھیر میں اوندھے پڑے تھے
ہر اک بستی، ہر اک مکتب
مساجد، مدرسے اور دفتری دیوار و در
یوں اپنی چھت کے نیچے خود ہی آکر دب چکے تھے
کہ جیسے مالکِ کُل نے تباہی کے فرشتے کو
اشارہ کر دیا ہو
اور اُس نے حکم پاتے ہی
مظفر باد، بالا کوٹ، اَلائی ، مانسہرے اور
ان سے ملحقہ سارے علاقوں کے
مہکتے گلستانوں میں
اجل کی آگ بھر دی ہو
تمہیں معلوم کیا اے ابنِ آدم۔۔۔!
تمہیں معلوم کیا وہ آگ کیا تھی؟
وہ نارۘ حامیہ کا اک شرارہ تھی
جسے معصوم مٹی سہہ نہ پائی
اور بہت ہی مضطرب، بے چین ہو کر
کروٹیں لینے لگی
کروٹیں ایسی کہ چند لمحوں میں
سارے شہر غم کی راکھ بن کر بجھ گئے ہیں!
No comments:
Post a Comment