میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا

Ads

Monday, December 31, 2012

میں لوٹوں گا دسمبر میں



’’دسمبر جب بھی آتا ہے‘‘

وہ پگلی پھر سے بیتے موسم کی تلخیوں کو یاد کرتی ہے
پرانے کارڈ پڑھتی ہے کہ جس میں لکھاتھا
’’میں لوٹوں گا دسمبر میں‘‘

نئے کپڑے بناتی ہے
وہ سارا گھر سجاتی ہے
دسمبر کے ہر اک دن کو
وہ گِن گِن کے بِتاتی ہے

جونہی پندرہ گزرتی ہے
وہ کچھ کچھ ٹوٹ جاتی ہے
مگر پھر بھی پرانے البموں کو کھول کر
ماضی بلاتی ہے

نہیں معلوم یہ اس کو کہ
بیتے وقت کی خوشیاں بہت تکلیف دیتی ہے
بہت دل کو جلاتی ہیں

یونہی دن بیت جاتے ہیں
دسمبر لوٹ جاتا ہے
مگر خوش فہم سی لڑکی دوبارہ سے
کلینڈر میں دسمبر کے مہینے کے صفحے کو
موڑ کر پھر سے دسمبر کے سحر میں کھو جاتی ہے
کہ آخر اس نے کہا تھا
’’میں لوٹوں گا دسمبر میں‘‘
__________________

دسمبر تم نہ جاؤ نا



ابھی لمحے نہیں بکھرے
ابھی موسم نہیں بچھڑے
میرے کمرے کی ٹھنڈک میں
ابھی کچھ دھوپ باقی ہے
میری ڈائری کے کچھ صفحے 
ابھی کچھ کہہ نہیں پائے
میرے آنگن کے سب پودے
ابھی بھی گنگناتے ہیں
میرے بے جان ہونٹوں پر
ابھی مسکان باقی ہے
کسی کے لوٹ آنے کا
ابھی امکان باقی ہے
دسمبر بات اک سن لو
سنو تم مان جاؤ نا..!
کہ جب تک وہ نہیں آتا
دسمبر تم نہ جاؤ نا


Sunday, December 30, 2012

دسمبر اب کے جاؤ تو مجھے بھی ساتھ لے جانا



دسمبر اب کے جاؤ تو مجھے بھی ساتھ لے جانا
مجھے معلوم ہے ہرسال تم جب بھی آتے ہو
تو جاتے جاتے اپنے سنگ دنیا سے
ہماری ساعتوں
یادوں سے
بھرپور سال اپنے ساتھ لے کر
کہیں ڈوبتے سورج کے سنگ
گمنام کرتے ہو
کہ سورج پھر نکلتا ہے
مگر وہ سال پھر نہین ملتا
دسمبر اب کے جاؤ تو مجھے بھی ساتھ لے جانا
مجھے بھی شام ہونا ہے
مجھے گمنام ہونا ہے



Saturday, December 29, 2012

تجھ سے ملے بغیر دسمبر گــــزر گیا


یہ سال بھی اداس رہا ۔ ۔ ۔ روٹھ کر گیا
تجھ سے ملے بغیر دسمبر گــــزر گیا

آخری چند دن دسمبر کے


آخری چند دن دسمبر کے 

ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں
خواہشوں کے نگار خانے سے
کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں

رفتگاں کے بکھرے سایوں کی
ایک محفل سی دل میں سجتی ہے

فون کی ڈائری کے صفحوں سے
کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے
جن سے مربوط بے نوا گھنٹی
اب فقط میرے دل میں بجتی ہے

کس قدر پیارے پیارے ناموں پر
رینگتی بدنما لکیریں سی
میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں
دوریاں دائرے بناتی ہیں

دھیان کی سیڑھیوں میں کیا کیا عکس
مشعلیں درد کی جلاتے ہیں
نام جو کٹ گئے ہیں اُن کے حرف
ایسے کاغذ پہ پھیل جاتے ہیں

حادثے کے مقام پر جیسے
خون کے سوکھے نشانوں پر
چاک سے لائنیں لگاتے ہیں

پھر دسمبر کے آخری دن ہیں
ہر برس کی طرح سے اب کے بھی

ڈائری ایک سوال کرتی ہے
کیا خبر اس برس کے آخر تک

میرے ان بے چراغ صفحوں سے
کتنے ہی نام کٹ گئے ہونگے
کتنے نمبر بکھر کے رستوں میں
گردِ ماضی سے اٹ گئے ہونگے

خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں
کتنے طوفان سمٹ گئے ہونگے

ہردسمبر میں سوچتا ہوں میں
ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے
رنگ کو روشنی میں کھونا ہے

اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی
ڈائری ،دوست دیکھتے ہونگے

ان کی آنکھوں کے کواب دانوں میں
ایک صحرا سا پھیلتا ہوگا
اور کچھ بے نشاں صفحوں سے

نام میرا بھی

کٹ گیا ہوگا

امجد اسلام امجد

Friday, December 28, 2012

سنا ہے نیا سال پھر آرہا ہے

سنا ہے نیا سال پھر آرہا ہے 
خوشیاں بھی ہونگی ، بہاریں بھی ہونگی 
مگر ہم تو گزرے دسمبر کی سوچوں میں گم ہیں 
کے جب تُو میرے پاس تھی 
ہاتھ تیرا میرے ہاتھ میں تھا 
اور خوشیاں چار سو ہمارے ساتھ تھیں 
مگر اب اکیلے تمہیں سوچتے ہیں 
یہی خوف دامن سے لپٹا ہوا ہے 
کے ایسا نا ہو اس برس بھی دسمبر 
تمھارے بنا ہی کہیں بیت جائے 
دسمبر تو ہر سال آتا رہے گا 
مگر تم نا ہوگے تُو کچھ بھی نا ہوگا 
سنا ہے نیا سال پھر آرہا ہے

Thursday, December 27, 2012

ایک دُعا آپ کے نام


دُعائوں میں بسے لوگو!

سنو یہ رابطوں کی دنیا ہے،

رابطوں سے رشتے ہیں،

چاہتوں کے یہ سنگم،

خؤشیوں کے یہ آنگن،

دوستی کے یہ بندھن،

ہم کو یاد آئیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آنے والے سالوں میں

کس کے سنگ ہنسنا ہے 

کس سے مل کے رونا ہے

کب یہ اپنے بس میں ہے

مگر آسمان کی جانب

پھیلائے ہاتھ کہتے ہیں

دل سے دل کا ہر تعلق

معتبر دُعا سے ہے

جہاں بھی رہو صدا خؤش رہو 

آمین یا رب العالمین


Wednesday, December 26, 2012

خوابوں کا بھرم ٹُوٹ گیا


اپنے بستر پہ بہت دیر سے میں نیم دراز
سوچتی تھی کہ وہ اس وقت کہاں پر ہو گا
میں یہاں ہوں مگر اُس کوچہ رنگ و بُو میں
روز کی طرح سے وہ آج بھی آیا ہو گا
اور جب اُس نے وہاں مُجھ کو نہ پایا ہو گا!؟

آپ کو عِلم ہے، وہ آج نہیں آئی ہیں ؟
میری ہر دوست سے اُس نے یہی پُوچھا ہو گا
کیوں نہیں آئی وہ کیا بات ہُوئی ہے آخر
خُود سے اِس بات پہ سو بار وہ اُلجھا ہو گا
کل وہ آئے گی تو میں اُس سے نہیں بولوں گا
آپ ہی آپ کئی بار وہ رُوٹھا ہو گا

وہ نہیں ہے تو بلندی کا سفر کتنا کٹھن
سیڑھیاں چڑھتے ہُوئے اُس نے یہ سوچا ہو گا
راہداری میں ، ہرے لان میں ،پھُولوں کے قریب
اُس نے ہر سمت مُجھے آن کے ڈھونڈا ہو گا

نام بھُولے سے جو میرا کہیں آیا ہو گا
غیر محسوس طریقے سے وہ چونکا ہو گا
ایک جملے کو کئی بار سُنایا ہو گا
بات کرتے ہُوئے سو بار وہ بھُولا ہو گا

یہ جو لڑکی نئی آئی ہے،کہیں وہ تو نہیں
اُس نے ہر چہرہ یہی سوچ کے دیکھا ہو گا
جانِ محفل ہے، مگر آج، فقط میرے بغیر
ہائے کس درجہ وہی بزم میں تنہا ہو گا

کبھی سناٹوں سے وحشت جو ہُوئی ہو گی اُسے
اُس نے بے ساختہ پھر مُجھ کو پُکارا ہو گا
چلتے چلتے کوئی مانوس سی آہٹ پاکر
دوستوں کو بھی کسی عُذر سے روکا ہو گا

یاد کر کے مجھے، نَم ہو گئی ہوں گی پلکیں
’’
آنکھ میں پڑ گیا کچھ‘‘ کہہ کے یہ ٹالا ہو گا
اور گھبرا کے کتابوں میں جو لی ہو گئی پناہ
ہر سطر میں مرا چہرہ اُبھر آیا ہو گا

جب ملی ہوئی اسے میری علالت کی خبر
اُس نے آہستہ سے دیوار کو تھاما ہو گا
سوچ کہ یہ، کہ بہل جائے پریشانیِ دل
یونہی بے وجہ کسی شخص کو روکا ہو گا!

اتفاقاً مجھے اُس شام مری دوست ملی
مَیں نے پُوچھا کہ سنوآئے تھے وہ کیسے تھے؟
مُجھ کو پُوچھا تھا؟مُجھے ڈھونڈا تھا چاروں جانب؟

اُس نے اِک لمحے کو دیکھا مجھے اور پھر ہنسی دی
اس ہنسی میں تو وہ تلخی تھی کہ اس سے آگے
کیا کہا اُس نے ۔۔ مُجھے یاد نہیں ہے لیکن

اِتنا معلوم ہے ،خوابوں کا بھرم ٹُوٹ گیا

 پروین شاکر


Monday, December 3, 2012

دسمبرتم مت آیا کرو



دسمبرتم مت آیا کرو
سنو کہ
جب بھی تم آتے ہو
اداسیوں کی ان دیکھی
بارشوں میں دل کو بھگو دیتے ہو
تم آتے ہو تو
برفیلی سی تنہائیوں کی
سرد ہوا کانٹوں کی طرح
رگِ جاں میں چبھنے لگتی ہیں
اور اکیلے پن میں
دکھ جاگ کر
نیندوں کو نِگھل جاتے ہیں
اور جو اپنے
جدائی کی دُھند میں
کھو گئے ہیں
ہم سے بہت دور ہو گئے ہیں
اُن کی یاد
پھر سے آنے لگتی ہے

سنو دسمبر
تم مت آیا کرو ۔ ۔ ۔!!

Saturday, December 1, 2012

دسمبر آج بھی اپنے اثاثے ساتھ لایا ہے


دسمبر آج بھی اپنے اثاثے ساتھ لایا ہے
وہی تیور، وہی افسردگی اور سرد سا لہجہ

گمان ہوتا ہے اس بار دسمبر مار ڈالے گا


یہ شام ، سرد ہوا اور ہجر کا عالم
گمان ہوتا ہے اس بار دسمبر مار ڈالے گا

بس اک میری بات نہیں سب کا درد دسمبر تھا


بس اک میری بات نہیں سب کا درد دسمبر تھا
برف کے شہر میں رہنے والا اک اک فرد دسمبر تھا

پچھلے سال کے آخر میں بھی حیرت میں ہم تینوں تھے
اک میں تھا، اک تنہائی تھی، اک بے درد دسمبر تھا

سنو دسمبر اسے پکارو

سنو دسمبر
اسے پکارو
سنو دسمبر
اسے ملادو
اسے بلادو

اب اس سے پہلے کہ
سال گذرے
اب اس سے پہلے کہ
جان نکلے

وہی ستارہ میری لکیروں میں
قید کردو
اس آخری شب کے
آخری پل
کوئی بڑا اختتام کر دو
یہ زندگی ہی تمام کردو

سنودسمبر
سنو دسمبر
اسے بلادو
اسے ملادو

ابھی ہجر کا قیام ہے اور دسمبر آن پہنچا ہے


ابھی ہجر کا قیام ہے اور دسمبر آن پہنچا ہے
یہ خبر شہر میں عام ہے دسمبر آن پہنچا ہے

آنگن میں اُتر آئی ہے مانوس سی خوشبو
یادوں کا اژدہام ہے ، دسمبر آن پہنچا ہے

خاموشیوں کا راج ہے ،خزاں تاک میں ہے
اداسی بھی بہت عام ہے ،دسمبر آن پہنچا ہے

تیرے آنے کی امید بھی ہو چکی معدوم
نئے برس کا اہتمام ہے ،دسمبر آن پہنچا ہے

خُنک رت میں تنہائی بھی چوکھٹ پہ کھڑی ہے
جاڑے کی اداس شام ہے ،دسمبر آن پہنچا ہے

تم آؤ تو مرے موسموں کی بھی تکمیل ہو جائے
نئے رُت تو سرِ بام ہے ، دسمبر آن پہنچا ہے

تُم عہد کر کے نہیں لوٹے یہ موسم لوٹ آیا ہے



دسمبر کے دنوں میں تم نے یہ کہا تھا نا
کہ تنہا ہوں مگر پھر بھی تمہارا ساتھ میں دوں گا

اپنے ہاتھ آنکھوں پر میری رکھ کر کہا تھا نا
بھری دنیا سے ٹکرا کے ساتھ تمہارا میں دوں گا

مجھے آغوش میں لے یہ اکثر مجھے سے کہتے تھے
کوئی مشکل جو آئے گی، تمہاراساتھ میں دوں گا

نہ بدلوں گا کبھی، جیسے موسم یہ بدلتے ہیں
بدلتے موسموں میں بھی ساتھ تمہارا میں دوں گا

تمہاری انہیں باتوں سے بہت مجبور ہو کر میں
سب کے سامنے یہ کہنا چاہتی ہوں

تمہارے عہد وپیماں سے تو یہ موسم ہی اچھے ہیں
تُم عہد کر کے نہیں لوٹے یہ موسم لوٹ آیا ہے

دسمبر میں کہا تھا ناکہ واپس لوٹ آئو گے
ابھی تک تُم نہیں لوٹے، دسمبر لوٹ آیا ہے

تم بھي لوٹ آؤ

بھيگي سرد ہواؤ
اسے بتاؤ
دسمبر لوٹ آيا ہے 
پايا تو اس محبت ميں کچھ بھي نہيں 
بس 
چين وقرار ہم نے کھويا ہے 
بيت گيا جدائ کا ايک اور سال 
حشر سا يادوں نے اٹھايا ہے 
بھيگي سرد ہواؤ 
اسے بتاؤ 
دل پہ لگے ہيں جو گھاؤ 
انہيں ديکھ جاۓ 
جل رہے ہيں جو دکھ کے دہکتے الاؤ 
بھيگي سرد ہواؤ،اسے بتاؤ 
دسمبر لوٹ آيا ہے 
تم بھي لوٹ آؤ 
ہم ستم رسيدہ لوگوں کو 
اور نہ ستاؤ۔ 


اسے کہنا دسمبر لوٹ آیا ہے


اسے کہنا دسمبر لوٹ آیا ہے
ہوائیں سرد ہیں اور وادیاں بھی دھند میں گم ہیں
پہاڑوں نے برف کی شال پھر سے اوڑھ رکھی ہے
سبھی رستے تمہاری یاد میں پُرنم سے لگتے ہیں
جنہیں شرفِ مسافت تھا
وہ سارے کارڈز
وہ پرفیوم
وہ چھوٹی سی ڈائری
وہ ٹیرس
وہ چائے
جو ہم نے ساتھ میں پی تھی
تمہاری یاد لاتے ہیں
تمہیں واپس بلاتے ہیں
اسے کہنا
کہ دیکھو یوں ستاؤ نا
دسمبر لوٹ آیا ہے
سنو تم لوٹ آؤ نا

Monday, November 12, 2012

نومبر کس لۓ آخر ہمیشہ خاص لگتا ہے

وہ درجن بھر مہینوں سے سدا ممتاز لگتا ہے
نومبر کس لۓ آخر ہمیشہ خاص لگتا ہے
بہت سہمی ہوئی صبحیں، اُداسی سے بھری شامیں
دوپہریں روئی روئی سی، وہ راتیں کھوئی کھوئی سی
گرم دبیز شالوں کا، وہ کم روشن اُجالوں کا
کبھی گزرے حوالوں کا، کبھی مشکل سوالوں کا
بچھڑ جانے کی مایوسی، ملن کی آس لگتا ہے
نومبر کس لۓ آخر ہمیشہ خاص لگتا ہے
 

Monday, November 5, 2012

او دیس سے آنے والے بتا !!!!!!



او دیس سے آنے والے بتا 
او دیس سے آنے والے بتا
کس حال میں ہیں یارانِ وطن
آوارء غربت کو بھی سُنا
کس رنگ میں ہیں کنعانِ وطن
وہ باغِ وطن فردوسِ وطن
وہ سروِ وطن ریحانِ وطن
او دیس سے آنے والے بتا


او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی وطن میں ویسے ہی
سر مست نظارے ہوتے ہیں
کیا اب بھی سہانی راتوں کو
وہ چاند ستارے ہوتے ہیں
ہم کھیل جو کھیلا کرتے تھے
کیا اب بھی وہ سارے ہوتے ہیں
او دیس سے آنے والے بتا



او دیس سے آنے والے بتا
شاداب شگفتہ پھولوں سے
معمور ہیں گلزار اب کے نہیں
بازار میں مالن لاتی ہے
پھولوں کے گندھے ہار اب کے نہیں
اور شوق سے ٹوٹے پڑتے ہیں
نو عمر خریدار اب کے نہین
او دیس سے آنے والے بتا



او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی وہاں ویسی ہی جواں
اور مدھ بھری راتیں ہوتی ہیں
کیا رات بھر اب بھی گیتوں کی
اور پیار کی باتیں ہوتی ہیں
وہ حسن کے جادو چلتے ہیں
وہ عشق کی گھاتیں ہوتی ہیں
او دیس سے آنے والے بتا



او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی وہاں کے پنگھٹ پر
پِنہاریاں پانی بھرتی ہیں
انگڑائی کا نقشہ بن بن کر
سب ماتھے پہ گاگر دھرتی ہیں
اور اپنے گھر کو جاتے ہوئے
ہنستی ہوئی چہلیں کرتی ہیں
او دیس سے آنے والے بتا



او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی پہاڑی گھاٹیوں میں
گھنگھور گھٹائیں گونجتی ہیں
ساحل کے گھنیرے پیروں میں
برکھا کی صدائیں گونجتی ہیں
جھینگر کے ترانے جاگتے ہیں 
موروں کی صدائیں گونجتی ہیں
او دیس سے آنے والے بتا



او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی وہاں میلوں میں وہی
برسات کا جوبن ہوتا ہے
پھیلے ہوئے بر کی شاخوں میں
جھولوں کا نشیمن ہوتا ہے
اُمڈے ہوئے بادل ہوتے ہیں
چھایا ہوا ساون ہوتا ہے
او دیس سے آنے والے بتا



او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی وہاں برسات کے دن
باغوں میں بہاریں آتی ہیں
معصوم و حسین دوشیزائیں 
برکھا کے ترانے گاتی ہیں
اور تیتلیوں کی طرح سے رنگین
جھولوں پر لہراتی ہیں
او دیس سے آنے والے بتا



او دیس سے آنے والے بتا
کیا پہلی سی ہے معصوم ابھی
وہ مدرسے کی شاداب فِضا
کچھ بھولے ہوئے دن گزرے ہیں
جس میں وہ مثالِ خواب فِضا
وہ کھیل ، وہ ہم سِن ،وہ میدان
وہ خواب گاہء مہتاب فِضا
او دیس سے آنے والے بتا



او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی کسی کے سینے میں
باقی ہے ہماری چاہ بتا ؟؟؟؟؟؟؟
کیا یاد ہمیں بھی کرتا ہے اب
یاروں میں کوئی آہ بتا ؟؟؟؟؟
او دیس سے آنے والے بتا
للہ بتا للہ بتا 
او دیس سے آنے والے بتا



او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی فجر دم چرواہے
ریوڑ کو چرانے جاتے ہیں
اور شام کے دھندلے سایوں کے ہمراہ
گھر کو آتے ہیں۔۔۔ ۔۔۔ 
اور اپنی رسیلی بانسریوں میں
عشق کے نغمے گاتے ہیں
او دیس سے آنے والے بتا



او دیس سے آنے والے بتا
آخر میں یہ حسرت ہے کہ بتا
وہ غارتِ ایمان کیسی ہے
بچپن میں جو آفت ڈھاتی تھی
وہ آفتِ دوراں کیسی ہے
ہم دونوں تھے جس کے پروانے
وہ شمعء شبستان کیسی ہے
او دیس سے آنے والے بتا



او دیس سے آنے والے بتا
مرجانہ تھا جس کا نام بتا
وہ غنچہ دہن کس حال میں ہے
جس پر تھے فِدا طفلانِ وطن
وہ جانِ وطن کس حال میں ہے
وہ سروِ چمن وہ رشکِ وطن
وہ سیمیں بدن کس حال میں ہے
او دیس سے آنے والے بتا



او دیس سے آنے والے بتا
اب نامِ خدا ہوگی وہ جواں
میکے میں ہے یا سسرال گئی
گھر پر ہی رہی یا گھر سے گئی
خوشحال رہی ، خوشحال گئی
او دیس سے آنے والے بتا 
او دیس سے آنے والے بتا

للہ بتا للہ بتا 

( اختر شیرانی )
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Follow on Facebook