میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا

Ads

Monday, November 5, 2012

او دیس سے آنے والے بتا !!!!!!



او دیس سے آنے والے بتا 
او دیس سے آنے والے بتا
کس حال میں ہیں یارانِ وطن
آوارء غربت کو بھی سُنا
کس رنگ میں ہیں کنعانِ وطن
وہ باغِ وطن فردوسِ وطن
وہ سروِ وطن ریحانِ وطن
او دیس سے آنے والے بتا


او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی وطن میں ویسے ہی
سر مست نظارے ہوتے ہیں
کیا اب بھی سہانی راتوں کو
وہ چاند ستارے ہوتے ہیں
ہم کھیل جو کھیلا کرتے تھے
کیا اب بھی وہ سارے ہوتے ہیں
او دیس سے آنے والے بتا



او دیس سے آنے والے بتا
شاداب شگفتہ پھولوں سے
معمور ہیں گلزار اب کے نہیں
بازار میں مالن لاتی ہے
پھولوں کے گندھے ہار اب کے نہیں
اور شوق سے ٹوٹے پڑتے ہیں
نو عمر خریدار اب کے نہین
او دیس سے آنے والے بتا



او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی وہاں ویسی ہی جواں
اور مدھ بھری راتیں ہوتی ہیں
کیا رات بھر اب بھی گیتوں کی
اور پیار کی باتیں ہوتی ہیں
وہ حسن کے جادو چلتے ہیں
وہ عشق کی گھاتیں ہوتی ہیں
او دیس سے آنے والے بتا



او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی وہاں کے پنگھٹ پر
پِنہاریاں پانی بھرتی ہیں
انگڑائی کا نقشہ بن بن کر
سب ماتھے پہ گاگر دھرتی ہیں
اور اپنے گھر کو جاتے ہوئے
ہنستی ہوئی چہلیں کرتی ہیں
او دیس سے آنے والے بتا



او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی پہاڑی گھاٹیوں میں
گھنگھور گھٹائیں گونجتی ہیں
ساحل کے گھنیرے پیروں میں
برکھا کی صدائیں گونجتی ہیں
جھینگر کے ترانے جاگتے ہیں 
موروں کی صدائیں گونجتی ہیں
او دیس سے آنے والے بتا



او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی وہاں میلوں میں وہی
برسات کا جوبن ہوتا ہے
پھیلے ہوئے بر کی شاخوں میں
جھولوں کا نشیمن ہوتا ہے
اُمڈے ہوئے بادل ہوتے ہیں
چھایا ہوا ساون ہوتا ہے
او دیس سے آنے والے بتا



او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی وہاں برسات کے دن
باغوں میں بہاریں آتی ہیں
معصوم و حسین دوشیزائیں 
برکھا کے ترانے گاتی ہیں
اور تیتلیوں کی طرح سے رنگین
جھولوں پر لہراتی ہیں
او دیس سے آنے والے بتا



او دیس سے آنے والے بتا
کیا پہلی سی ہے معصوم ابھی
وہ مدرسے کی شاداب فِضا
کچھ بھولے ہوئے دن گزرے ہیں
جس میں وہ مثالِ خواب فِضا
وہ کھیل ، وہ ہم سِن ،وہ میدان
وہ خواب گاہء مہتاب فِضا
او دیس سے آنے والے بتا



او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی کسی کے سینے میں
باقی ہے ہماری چاہ بتا ؟؟؟؟؟؟؟
کیا یاد ہمیں بھی کرتا ہے اب
یاروں میں کوئی آہ بتا ؟؟؟؟؟
او دیس سے آنے والے بتا
للہ بتا للہ بتا 
او دیس سے آنے والے بتا



او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی فجر دم چرواہے
ریوڑ کو چرانے جاتے ہیں
اور شام کے دھندلے سایوں کے ہمراہ
گھر کو آتے ہیں۔۔۔ ۔۔۔ 
اور اپنی رسیلی بانسریوں میں
عشق کے نغمے گاتے ہیں
او دیس سے آنے والے بتا



او دیس سے آنے والے بتا
آخر میں یہ حسرت ہے کہ بتا
وہ غارتِ ایمان کیسی ہے
بچپن میں جو آفت ڈھاتی تھی
وہ آفتِ دوراں کیسی ہے
ہم دونوں تھے جس کے پروانے
وہ شمعء شبستان کیسی ہے
او دیس سے آنے والے بتا



او دیس سے آنے والے بتا
مرجانہ تھا جس کا نام بتا
وہ غنچہ دہن کس حال میں ہے
جس پر تھے فِدا طفلانِ وطن
وہ جانِ وطن کس حال میں ہے
وہ سروِ چمن وہ رشکِ وطن
وہ سیمیں بدن کس حال میں ہے
او دیس سے آنے والے بتا



او دیس سے آنے والے بتا
اب نامِ خدا ہوگی وہ جواں
میکے میں ہے یا سسرال گئی
گھر پر ہی رہی یا گھر سے گئی
خوشحال رہی ، خوشحال گئی
او دیس سے آنے والے بتا 
او دیس سے آنے والے بتا

للہ بتا للہ بتا 

( اختر شیرانی )
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Follow on Facebook