دسمبرتم مت آیا کرو
سنو کہ
جب بھی تم آتے ہو
اداسیوں کی
ان دیکھی
بارشوں میں دل کو بھگو
دیتے ہو
تم آتے ہو تو
برفیلی سی تنہائیوں کی
سرد ہوا کانٹوں کی طرح
رگِ جاں میں چبھنے لگتی
ہیں
اور اکیلے پن میں
دکھ جاگ کر
نیندوں کو نِگھل جاتے
ہیں
اور جو اپنے
جدائی کی دُھند میں
کھو گئے ہیں
ہم سے بہت دور ہو گئے
ہیں
اُن کی یاد
پھر سے آنے لگتی ہے
سنو دسمبر
تم مت آیا کرو ۔ ۔ ۔!!
No comments:
Post a Comment