گرميوں ميں جب سب گھر والے سو جاتےتھے
دھوپ کی انگلی تھام کے ھم چل پڑتے تھے
ھميں پرندے کتنے پيار سے تکتے تھے
ھم جب ان کے سامنے پانی رکھتے تھے
موت ھميں اپنی آغوش ميں چھپاتی تھی
قبرستان ميں جا کر کھيلا کرتے تھے
رستے ميں اک ان پڑھ دريا پڑتا تھا
جس سے گزر کر پڑھنے جايا کرتے تھے
جيسے سورج آ کر پياس بجھائے گا
صبح سويرے ايسے پانی بھرتے تھے
اڑنا ھم کو اتنا اچھا لگتا تھا
چڑياں پکڑ کر ان کو چوما کرتے تھے
تتلياں ھم پر بيٹھا کرتيں تھيں
ھم پھولوں سے اتنے ملتے جلتے تھے
ملی تھی يہ جوانی ھم کو رستے ميں
ھم تو گھر سے بچپن اوڑھ کے نکلے تھے
دھوپ کی انگلی تھام کے ھم چل پڑتے تھے
ھميں پرندے کتنے پيار سے تکتے تھے
ھم جب ان کے سامنے پانی رکھتے تھے
موت ھميں اپنی آغوش ميں چھپاتی تھی
قبرستان ميں جا کر کھيلا کرتے تھے
رستے ميں اک ان پڑھ دريا پڑتا تھا
جس سے گزر کر پڑھنے جايا کرتے تھے
جيسے سورج آ کر پياس بجھائے گا
صبح سويرے ايسے پانی بھرتے تھے
اڑنا ھم کو اتنا اچھا لگتا تھا
چڑياں پکڑ کر ان کو چوما کرتے تھے
تتلياں ھم پر بيٹھا کرتيں تھيں
ھم پھولوں سے اتنے ملتے جلتے تھے
ملی تھی يہ جوانی ھم کو رستے ميں
ھم تو گھر سے بچپن اوڑھ کے نکلے تھے
بچپن کے دکھ کتنے اچھے ھوتے تھے
تب تو صرف کھلونے ٹوٹا کرتے تھے
وہ خوشياں بھی جانے کيسی خوشياں تھيں
تتلي کے پر نوچ کے اچھلا کرتے تھے
مار کے پاؤں، ھم بارش کے پانی ميں
اپنی ناؤ کو آپ ڈبويا کرتے تھے
چھوٹے تھے تو مکرو فريب بھی چھوٹے تھے
دانہ ڈال کے چڑيا پکڑا کرتے تھے
اب تو اک آنسو بھی رسوا کر جاتا ھے
بچپن ميں جی بھر کے رويا کرتے تھے
خُوشبو کے اڑتے ہی کيوں مرجھايا پھول
کتنے بھولے پن سے پوچھا کرتے تھے
کھيل کود کے دن بھر اپنی ٹولی ميں
رات کو ماں کی گود ميں سويا کرتے تھے
تب تو صرف کھلونے ٹوٹا کرتے تھے
وہ خوشياں بھی جانے کيسی خوشياں تھيں
تتلي کے پر نوچ کے اچھلا کرتے تھے
مار کے پاؤں، ھم بارش کے پانی ميں
اپنی ناؤ کو آپ ڈبويا کرتے تھے
چھوٹے تھے تو مکرو فريب بھی چھوٹے تھے
دانہ ڈال کے چڑيا پکڑا کرتے تھے
اب تو اک آنسو بھی رسوا کر جاتا ھے
بچپن ميں جی بھر کے رويا کرتے تھے
خُوشبو کے اڑتے ہی کيوں مرجھايا پھول
کتنے بھولے پن سے پوچھا کرتے تھے
کھيل کود کے دن بھر اپنی ٹولی ميں
رات کو ماں کی گود ميں سويا کرتے تھے
No comments:
Post a Comment