میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا

Ads

Saturday, January 8, 2011

بچپن کے دکھ کتنے اچھے ھوتے تھے


بچپن کے دکھ کتنے اچھے ھوتے تھے


گرميوں ميں جب سب گھر والے سو جاتےتھے
دھوپ کی انگلی تھام کے ھم چل پڑتے تھے
ھميں پرندے کتنے پيار سے تکتے تھے
ھم جب ان کے سامنے پانی رکھتے تھے
موت ھميں اپنی آغوش ميں چھپاتی تھی
قبرستان ميں جا کر کھيلا کرتے تھے
رستے ميں اک ان پڑھ دريا پڑتا تھا
جس سے گزر کر پڑھنے جايا کرتے تھے
جيسے سورج آ کر پياس بجھائے گا
صبح سويرے ايسے پانی بھرتے تھے
اڑنا ھم کو اتنا اچھا لگتا تھا
چڑياں پکڑ کر ان کو چوما کرتے تھے
تتلياں ھم پر بيٹھا کرتيں تھيں
ھم پھولوں سے اتنے ملتے جلتے تھے
ملی تھی يہ جوانی ھم کو رستے ميں
ھم تو گھر سے بچپن اوڑھ کے نکلے تھے


بچپن کے دکھ کتنے اچھے ھوتے تھے
تب تو صرف کھلونے ٹوٹا کرتے تھے
وہ خوشياں بھی جانے کيسی خوشياں تھيں
تتلي کے پر نوچ کے اچھلا کرتے تھے
مار کے پاؤں، ھم بارش کے پانی ميں
اپنی ناؤ کو آپ ڈبويا کرتے تھے
چھوٹے تھے تو مکرو فريب بھی چھوٹے تھے
دانہ ڈال کے چڑيا پکڑا کرتے تھے
اب تو اک آنسو بھی رسوا کر جاتا ھے
بچپن ميں جی بھر کے رويا کرتے تھے
خُوشبو کے اڑتے ہی کيوں مرجھايا پھول
کتنے بھولے پن سے پوچھا کرتے تھے
کھيل کود کے دن بھر اپنی ٹولی ميں
رات کو ماں کی گود ميں سويا کرتے تھے
 

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Follow on Facebook