سوچتا ہوں کہ شاعری کر لوں
پھر تیرے نام اِک غزل لکھوں
تیری آنکھیں خُمار آلُودہ
بِن پیے میں کہیں بہک جاؤں
تُو بنے پھول اِس گلستاں کا
اور میں گیت تمہارے لکھوں
مِثلِ بُلبُل ہر ایک ڈالی پر
اُڑتے اُڑتے میں تیرے گُن گاؤں
چاہتا ہوں میں کوئی نظم لکھوں
تیری زلفیں ہوا میں بکھراؤں
یہ سراپا تیرا اے جانِ غزل!
چند اشعار میں بیان کروں
اپنے دل کی لگی بھی کہہ ڈالوں
اور یہ سب تمہاری نذر کروں
کاش میں ایسی نظم لکھ لیتا!
کاش کہ میں کبھی شاعر ہوتا!