میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا

Ads

Monday, December 2, 2013

سرد دسمبر،تم اور میں



ہجر کو چھو کر آئے تھے سرد دسمبر،تم اور میں
شجر سے لگ کر روئے تھے سرد دسمبر،تم اور میں

تنہا سی پگڈنڈی پر جانے کتنی دور تلک
یاد کے پھیلے سائے تھے سرد دسمبر، تم اور میں

جانے کیسی رت تھی وہ جانے کیسا موسم تھا
فصل گل کے نوحے تھے سرد دسمبر،تم اور میں

گم صم گم صم لرزیدہ گلے سے لگ کر روئے تھے
خواب جو ہم نے بو ئے تھے سرد دسمبر،تم اور میں

بارش،کہرے،پت جھڑ میں بجلی کوندی یاد آیا
دھوپ سنہری سوئے تھے سرد دسمبر،تم اور میں

ٹرین کی آخری سیٹی تک شاید تم کو یاد بھی ہو
اک دوجے میں کھوئے تھے سرد دسمبر ، تم اور میں

Saturday, November 30, 2013

اسے کہنا دسمبر آگیا ہے

اسے کہنا دسمبر آگیا ہے
دسمبر کے گزرتے ہی برس ایک اور ماضی کی گپھا میں
ڈوب جائے گا
اسے کہنا دسمبر لوٹ آئےگا
مگرجو خون جسموں میں
سو جائے گا وہ نہ جاگے گا
اسے کہنا ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کی کہرے کی
دیواروں پر لرزاں ہے
اسے کہنا شگوفے ٹہنیوں پر سو رہے ہیں
اور ان پر برف کی چادر بچھی ہے
اسے کہنا اگر سورج نہ نکلے گا
تو برف کیسے پگھلے گی
اسے کہنا لوٹ آئے

Monday, October 28, 2013

تمہیں کس نے کہا پگلی

تمہیں کس نے کہا پگلی
مجھے تم یاد آتی ھو ؟؟؟
بہت خوش فہم ھو تم بھی
تمھاری خوش گمانی ہے
میری آنکھوں کی سرخی میں
تمھاری یاد کا مطلب ؟؟
میرے شب بھر کے جگنے میں
تمھارے خواب کا مطلب ؟؟
یہ آنکھیں تو ہمیشہ سے ہی
میری سرخ رہتی ہیں
تمہیں معلوم ہی ہو گا
اس شہر کی فضا کتنی آلودہ ہے
تو یہ سوزش اسی فضا کے باعث ہے
تمہیں کس نے کہا پگلی
کہ میں شب بھر نہیں سوتا
مجھے اس نوکری کے سب جھمیلوں سے
فرصت ملے تو تب ہے نا
میری باتوں میں لرزش ہے؟
میں اکثر کھو سا جاتا ہوں؟
تمہیں کس نے کہا پگلی
محبت کے علاوہ اور بھی تو درد ہوتے ہیں
فکر معاش، سکھ کی تلاش
ایسے اور بھی غم ہیں
اور تم
ان سب غموں کے بعد آتی ھو
تمہیں کس نے کہا پگلی؟
مجھے تم یاد آتی ھو
یہ دنیا والے پاگل ہیں
زرا سی بات کو یہ افسانہ سمجھتے ہیں
مجھے اب بھی یہ پاگل
تیرا دیوانہ سمجھتے ہیں
تمہیں کس نے کہا پگلی
مگر شاید ٲٲٲٲٲٲٲ
مگر شاید ، میں جھوٹا ھوں
میں ریزا ریزا ٹوٹا ھوں

Friday, October 11, 2013

بس چائے بناتی ہوں



بڑا عرصہ ہوا اِک دن
بتایا تھا مجھے اُس نے
بنانا کچھ نہیں آتا
اگر مَیں کچھ بناتی ہوں
تو بس چائے بناتی ہوں
مَیں چائے کی دیوانی ہوں
بہت اچھی بناتی ہوں
پیو گے ناں؟؟
تو مَیں اس بات پر یوں مُسکراتا ہی رہا تھا کہ
بنانا کچھ نہیں آتا
بس اِک چائے بناتی ہوں
مجھے چائے سے اُلجھن ہے
نہیں پیتا، نہیں پیتا
مگر اِس بات کو بیتے زمانہ ہو گیا لوگو
نہیں معلوم مجھ کو کہ
وہ کیسی ہے؟
کہاں پر ہے؟
پر اب مَیں چائے پیتا ہوں
بڑی کثرت سے پیتا ہوں


Tuesday, October 8, 2013

آٹھ اکتوبر ۲۰۰۵ء


آٹھ اکتوبر ۲۰۰۵ء
(احمد ندیم قاسمی)

لکھوں تو کیا لکھوں!
کیسے لکھوں!
لفظوں کی ٹوٹی ہڈّیوں کو کیسے جوڑوں
سبھی روندے ہوۓ حرفوں سے،
نقطوں سے
جو پھوٹا پڑ رہا ہے جیتا جیتا خوں
صفحۂ قرطاس پر چنگاریاں بن کر ٹپکتا ہے
زباں کچلی پڑی ہے
اور اگر بولوں
تو لگتا ہے
مجھے چیخوں کے سوا کچھ بھی نہیں آتا
جنازوں پر یہاں زندہ جنازے سینہ زن ہیں
کچھ اگر باقی ہے تو رگ و پے میں اترتا درد ہے
قلب و جگر کو چیرتا دُکھ ہے
مجھے تو یہ کہنا نہیں آتا
کچھ آتا ہے
تو ایسے المیے پر
اور عناصر کے مقابل اپنی فطری بے بسی پر
ٹوٹ کر رونا ہی آتا ہے
لکھوں تو کیا لکھوں!
• — — — — — — — — — — — — •

Thursday, May 23, 2013

بڑا عرصہ ہوا اِک دن... بتایا تھا مجھے اُس نے





بڑا عرصہ ہوا اِک دن
بتایا تھا مجھے اُس نے
بنانا کچھ نہیں آتا
اگر مَیں کچھ بناتی ہوں
تو بس چائے بناتی ہوں
مَیں چائے کی دیوانی ہوں
بہت اچھی بناتی ہوں
پیو گے ناں؟؟
تو مَیں اس بات پر یوں مُسکراتا ہی رہا تھا کہ
بنانا کچھ نہیں آتا
بس اِک چائے بناتی ہوں
مجھے چائے سے اُلجھن ہے
نہیں پیتا، نہیں پیتا
مگر اِس بات کو بیتے زمانہ ہو گیا لوگو
نہیں معلوم مجھ کو کہ
وہ کیسی ہے؟
کہاں پر ہے؟
پر اب مَیں چائے پیتا ہوں
بڑی کثرت سے پیتا ہوں

پھر اس کے بعد بہت دیر تک نڈھال رہے




اَنا کی جنگ میں ہم جیت تو گئے لیکن
پھر اس کے بعد بہت دیر تک نڈھال رہے

Friday, April 5, 2013

بہنا


بہنا 

وہ جوکہہ رہا تھا تم سے
 میری لاڈلی سی بہنا
ذرا حوصلے سے رہنا 
کوئی دکھ ہو، کوئی غم ہو 
اسے خوش دلی سے سہنا 
کوئی ایسا دن نہ آئے 
کہ تمہاری آنکھ نم ہو 
تمہیں یاد بھی نہ ہو گا 
میری چاند سی بہنا 
کہ یہ بات کہتے کہتے 
میں خود بھی رو دیا تھا 


Tuesday, February 5, 2013

وہ کہیں بھی گیا، لَوٹا تو مرے پاس آیا


کُو بہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی
اُن نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
کیسے کہہ دوں کہ مُجھے چھوڑ دیا اُس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رُسوائی کی
وہ کہیں بھی گیا، لَوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات اچھی مرے ہرجائی کی
تیرا پہلو، ترے دل کی طرح آباد ہے
تجھ پہ گُزرے نہ قیامت شبِ تنہائی کی
اُس نے جلتی ہُوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
رُوح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اُٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی

پروین شاکر

Wednesday, January 2, 2013

اُداسی میری فطرت ہے


مجھے اب فــرق نہیں پـڑتا دسمبر بیت جـــانے سے
اُداسی میری فطرت ہے، اسے موسم سے کیا مطلب


Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Follow on Facebook