میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا

Ads

Saturday, December 1, 2012

اسے کہنا دسمبر لوٹ آیا ہے


اسے کہنا دسمبر لوٹ آیا ہے
ہوائیں سرد ہیں اور وادیاں بھی دھند میں گم ہیں
پہاڑوں نے برف کی شال پھر سے اوڑھ رکھی ہے
سبھی رستے تمہاری یاد میں پُرنم سے لگتے ہیں
جنہیں شرفِ مسافت تھا
وہ سارے کارڈز
وہ پرفیوم
وہ چھوٹی سی ڈائری
وہ ٹیرس
وہ چائے
جو ہم نے ساتھ میں پی تھی
تمہاری یاد لاتے ہیں
تمہیں واپس بلاتے ہیں
اسے کہنا
کہ دیکھو یوں ستاؤ نا
دسمبر لوٹ آیا ہے
سنو تم لوٹ آؤ نا

1 comment:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Follow on Facebook