میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا

Ads

Saturday, December 1, 2012

دسمبر آج بھی اپنے اثاثے ساتھ لایا ہے


دسمبر آج بھی اپنے اثاثے ساتھ لایا ہے
وہی تیور، وہی افسردگی اور سرد سا لہجہ

گمان ہوتا ہے اس بار دسمبر مار ڈالے گا


یہ شام ، سرد ہوا اور ہجر کا عالم
گمان ہوتا ہے اس بار دسمبر مار ڈالے گا

بس اک میری بات نہیں سب کا درد دسمبر تھا


بس اک میری بات نہیں سب کا درد دسمبر تھا
برف کے شہر میں رہنے والا اک اک فرد دسمبر تھا

پچھلے سال کے آخر میں بھی حیرت میں ہم تینوں تھے
اک میں تھا، اک تنہائی تھی، اک بے درد دسمبر تھا

سنو دسمبر اسے پکارو

سنو دسمبر
اسے پکارو
سنو دسمبر
اسے ملادو
اسے بلادو

اب اس سے پہلے کہ
سال گذرے
اب اس سے پہلے کہ
جان نکلے

وہی ستارہ میری لکیروں میں
قید کردو
اس آخری شب کے
آخری پل
کوئی بڑا اختتام کر دو
یہ زندگی ہی تمام کردو

سنودسمبر
سنو دسمبر
اسے بلادو
اسے ملادو

ابھی ہجر کا قیام ہے اور دسمبر آن پہنچا ہے


ابھی ہجر کا قیام ہے اور دسمبر آن پہنچا ہے
یہ خبر شہر میں عام ہے دسمبر آن پہنچا ہے

آنگن میں اُتر آئی ہے مانوس سی خوشبو
یادوں کا اژدہام ہے ، دسمبر آن پہنچا ہے

خاموشیوں کا راج ہے ،خزاں تاک میں ہے
اداسی بھی بہت عام ہے ،دسمبر آن پہنچا ہے

تیرے آنے کی امید بھی ہو چکی معدوم
نئے برس کا اہتمام ہے ،دسمبر آن پہنچا ہے

خُنک رت میں تنہائی بھی چوکھٹ پہ کھڑی ہے
جاڑے کی اداس شام ہے ،دسمبر آن پہنچا ہے

تم آؤ تو مرے موسموں کی بھی تکمیل ہو جائے
نئے رُت تو سرِ بام ہے ، دسمبر آن پہنچا ہے

تُم عہد کر کے نہیں لوٹے یہ موسم لوٹ آیا ہے



دسمبر کے دنوں میں تم نے یہ کہا تھا نا
کہ تنہا ہوں مگر پھر بھی تمہارا ساتھ میں دوں گا

اپنے ہاتھ آنکھوں پر میری رکھ کر کہا تھا نا
بھری دنیا سے ٹکرا کے ساتھ تمہارا میں دوں گا

مجھے آغوش میں لے یہ اکثر مجھے سے کہتے تھے
کوئی مشکل جو آئے گی، تمہاراساتھ میں دوں گا

نہ بدلوں گا کبھی، جیسے موسم یہ بدلتے ہیں
بدلتے موسموں میں بھی ساتھ تمہارا میں دوں گا

تمہاری انہیں باتوں سے بہت مجبور ہو کر میں
سب کے سامنے یہ کہنا چاہتی ہوں

تمہارے عہد وپیماں سے تو یہ موسم ہی اچھے ہیں
تُم عہد کر کے نہیں لوٹے یہ موسم لوٹ آیا ہے

دسمبر میں کہا تھا ناکہ واپس لوٹ آئو گے
ابھی تک تُم نہیں لوٹے، دسمبر لوٹ آیا ہے

تم بھي لوٹ آؤ

بھيگي سرد ہواؤ
اسے بتاؤ
دسمبر لوٹ آيا ہے 
پايا تو اس محبت ميں کچھ بھي نہيں 
بس 
چين وقرار ہم نے کھويا ہے 
بيت گيا جدائ کا ايک اور سال 
حشر سا يادوں نے اٹھايا ہے 
بھيگي سرد ہواؤ 
اسے بتاؤ 
دل پہ لگے ہيں جو گھاؤ 
انہيں ديکھ جاۓ 
جل رہے ہيں جو دکھ کے دہکتے الاؤ 
بھيگي سرد ہواؤ،اسے بتاؤ 
دسمبر لوٹ آيا ہے 
تم بھي لوٹ آؤ 
ہم ستم رسيدہ لوگوں کو 
اور نہ ستاؤ۔ 


اسے کہنا دسمبر لوٹ آیا ہے


اسے کہنا دسمبر لوٹ آیا ہے
ہوائیں سرد ہیں اور وادیاں بھی دھند میں گم ہیں
پہاڑوں نے برف کی شال پھر سے اوڑھ رکھی ہے
سبھی رستے تمہاری یاد میں پُرنم سے لگتے ہیں
جنہیں شرفِ مسافت تھا
وہ سارے کارڈز
وہ پرفیوم
وہ چھوٹی سی ڈائری
وہ ٹیرس
وہ چائے
جو ہم نے ساتھ میں پی تھی
تمہاری یاد لاتے ہیں
تمہیں واپس بلاتے ہیں
اسے کہنا
کہ دیکھو یوں ستاؤ نا
دسمبر لوٹ آیا ہے
سنو تم لوٹ آؤ نا
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Follow on Facebook