میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا

Ads

Thursday, July 26, 2012

جانتی ہو مجھے کیا پسند ہے؟

تم
 جانتی ہو مجھے کیا پسند ہے؟
 گلاب کی مہک
 رات کی چاندنی
 شام کی اداسی
 سردیوں کی راتیں
 اور

 اس نظم کا ۔۔۔ پہلا لفظ

Monday, July 23, 2012

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں، ہر کام کرنے میں

ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو

اسے آواز دینے ہو، اسے واپس بلانا ہو

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو

بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو

بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو

کسی کو یاد رکھنا ہو، کسی کو بھول جانا ہو

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو

حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے يہ بتانا ہو


ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

Friday, July 13, 2012

آئینہ نہیں توڑو

آئنہ نہیں توڑو

آئنے سے ڈرتے ہو، آئنے کو مت توڑو
ٹوٹ کر بھی آئینہ، آئنہ ہی رہتا ہے
آئنے کا ہر ٹکڑا، آئنہ ہی ہوتا ہے
جس کسی میں دیکھو گے عکس بنتے جاؤ گے
آئنے سے بچ کر تم جا کہیں نہ پاؤ گے
آئنہ حقیقت ہے، اس سے منہ نہیں موڑو

آئنے میں رہتے ہو ، آئنے کو مت توڑو
آئنہ جو ٹوٹے گا، تم بھی ٹوٹ جاؤ گے
عمر بھر نہیں خود کو پھر سمیٹ پاؤ گے
دوسرا بھی کوئی پھر کب سمیٹ پاتا ہے
عکس کرچیاں ہو کر جب بکھرتا جاتا ہے
آئنہ محبت ہے' اس کا ساتھ مت چھوڑو
آئنہ نہیں توڑو

Tuesday, July 10, 2012

مفلسی کے دن ہیں

 سنو کوئی خریدار ہے نظر میں؟
 مفلسی کے دن ہیں وفا بیچنی ہے


Suno koi kharedar hai nazar main 
muflasi k din hain, wafa baichni hai

Monday, July 9, 2012

میں بیٹی ہوں میں اپنی ماں کو اپنے ساتھ لے آئی





اسے تنہا سسکتا چھوڑ جب آیا میرا بھائی 
میں بیٹی ہوں میں اپنی ماں کو اپنے ساتھ لے آئی 

وہ بوڑھی ہو گئی تو اب اسے اک بوجھ لگتی ہے 
جوانی اپنے بچوں کے لیے جس نے تھی جھلسائی

ہے بس اپنی ہی بیوی اور بچوں سے اسے مطلب 
اسی کو بھول بیٹھا ہے جو دنیا میں اسے لائی

بڑی گاڑی، بڑا بنگلہ، بڑا عہدہ سبھی کچھ ہے 
 مگر ماں باپ جب مانگیں، نہیں جیبوں میں اک پائی

وہ کتا پال سکتا ہے مگر ماں بوجھ لگتی ہے 
اسے کتے نے کیا کچھ بھی وفاداری نہ سکھلائی 

جو جیسا بیج بوتا ہے وہ پھل ویسا ہی پاتا ہے 
 بڑھاپا تجھ پہ بھی آئے گا، کیوں بھولا یہ سچائی 

تیرا بیٹا جو دیکھے گا، وہی تو وہ بھی سیکھے گا ؟
 تو اپنے واسطے ہاتھوں سے اپنے کھود نہ کھائی 

جو ودیاشرم میں بیٹا چھوڑ کر تجھ کو چلا آئے 
اگر زندہ رہی، پوچھے گی تجھ سے تیری ماں جائی

بتا کس کے لیے تو نے کمائی تھی یہاں دولت 
مگر جو اصل دولت فرض کی تھی وہ تو بسرای

کھلے گا جب خدا کے بنک میں کھاتا تیرا اک دن
تیرے سر پر بڑا قرضہ چڑھا ہو گا میرے بھائی 

جو منت مانگتے تھے "بس ہمیں بیٹا ہو، بیٹا ہو" 
انھیں بیٹی کی قیمت اب بڑھاپے میں سمجھ آئی 

Tuesday, July 3, 2012

انہیں یہ ناز کہ تصویر تو ہماری ہے



مجھے یہ زعم کہ میں حسن کا مصور ہوں
انہیں یہ ناز کہ تصویر تو ہماری ہے

کہاں سے چھاؤں ملے گی ہماری نسلوں کو

کہاں سے چھاؤں ملے گی ہماری نسلوں کو
زمیں پہ دھوپ کے پودے جو ہم اُگاتے رہیں
Kahan se chaon milay gi hamari naslon ko
zameen par dhoop kay poday jo ham ugatay hain
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Follow on Facebook