میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا

Ads

Saturday, October 27, 2012

روزِعید تجھے خوش آمدید کہوں تو کیسے۔ ۔؟



صبحِ عید کی دستک پھر سنائی دی ہے
جی چاہتا ہے در نہ کھولوں اس کیلئے
اسے کہہ دوں کسی اور نگر کو جائے 
اسے بتا دوں خستہ حال ہوں ابھی


روزِ عید تجھے خوش آمدید کہوں تو کیسے۔۔؟
روزِ عید! میرے دکھ لا دوا ہیں ابھی!


کرب چہروں پہ آویزاں ہے خزاؤں کی طرح
میرے شہروں پر جنگ کے مہیب سائے ہیں
کتنی بستیاں بارود نے اجاڑ ڈالی ہیں
جسم وجاں پر کتنے ہی عذاب آئے ہیں


بغداد و بصرہ نوحہ کناں نظر آئے ہیں 
تازہ لہو موصل میں رواں ہے ابھی 
وہ قندھار کا مرد جری بھی لوٹ کر نہیں آیا ہے 
قابل و قندوز کی سسکیاں ہیں فضاوں میں ابھی 


روز عید تجھے خوش آمدید کہوں تو کیسے۔ ۔؟
روز عید میرے دکھ لا دوا ہیں ابھی!


میرے زخموں سے لہو رس رہا ہے
بڑی شدت کا ان میں درد اٹھتا ہے
لمحہ لمحہ مقتلوں میں بدن کٹتے ہیں
گھر جلتے ہیں اور ان سے دھواں اٹھتا ہے


ابو غریب گوانتانامو کے عقوبت خانوں میں 
درندگی کا راج ہےشیطان رقصاں ہے ابھی 
سر بازار رسوا ہوئیں عفت ماب بیٹیاں 
کسی محمد بن قاسم کو پکارتی ہیں ابھی 


روزِعید تجھے خوش آمدید کہوں تو کیسے۔ ۔؟
روزِ عید میرے دکھ لا دوا ہیں ابھی!


کشمیر شعلوں میں گھرا دکھائی دیتا ہے
فریادوں کا شور ہر جانب سنائی دیتا ہے
مسجد اقصیٰ کے آنسو دلوں پہ گرتے ہیں
چیچنیا ظلم کی دلدل میں دکھائی دیتا ہے 


مہاجر کپمپ گھروں میں نہیں بدلے ہیں 
رفح و غزہ میں اک حشر بپا ہے ابھی 


روزِعید تجھے خوش آمدید کہوں تو کیسے۔ ۔؟
روزِعید میرے دکھ لا دوا ہیں ابھی!


ایسے سنگلاخ دکھ کے رویں تو سمندر بھر جائیں 
لیکن آنکھوں کے جزیرے میں اک آنسو بھی نہیں
میرے مظلوم دھوپ میں کھڑے ہیں بے بس
اور دور تلک سایہ دیوار بھی نہیں 


روزِعید مجھ میں سکت نہیں کے مناؤں تجھ کو 
میرے حوصلے کی فصیلوں میں دراڑیں ہیں ابھی 
تن فگار منتظر ہیں مسیحائی کے 
عدو کے تیر سینے میں ترازو ہیں ابھی 


روز عید تجھے خوش آمدید کہوں تو کیسے۔ ۔؟
روز عید میرے دکھ لا دوا ہیں ابھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!


Friday, October 26, 2012

اپنے وطن سے دور بیٹھے یہ عید بھی گزری ہے


اپنے وطن سے دور بیٹھے یہ عید بھی گزری ہے 
کیا کہیں کیا بتلائیں، کسی عید یہ گزری ہے 

اپنی بستی کا ہر چہرہ گھوم رہا تھا آنکھوں میں 
دھندلی دھندلی یادوں میں اپنی عید یہ گزری ہے 

جس طرف بھی اٹھی نظر، سورتیں تھیں اغیاروں کی 
بیچ ہجوم میں بھی تنہا اپنی عید یہ گزری ہے 

ہم سخن، ہم زبان، ہمنوا کوئی نہ تھا 
گونگے بہروں کی طرح اپنی عید یہ گزری ہے 

خوشی خوشی لوگ لوٹے ہوں گے اپنے گھروں کو 
پردیس کے اس صحرا میں اپنی عید یہ گزری ہے 

اب نہی تو اگلی بار چلے چلیں گی اپنوں میں 
اسی اس کے سہارے اپنی عید یہ گزری ہے 

آج کا دن مت چھیڑو گلشن کے افسانے کو 
ایسی ہی گزرنی تھی جیسی عید یہ گزری ہے 

Wednesday, October 10, 2012

بہت مصروف رہتے ہو

بہت مصروف رہتے ہو
نہیں فرصت ذرا تم کو

بہت سے دوست ایسے ہیں
جنہیں ملنا ملانا ہے

کئی دنیا کی رسمیں ہیں
جنہیں تم نے نبھانا ہے

ادھورے کام ہیں ڈھیروں
جنہیں اب ختم کرنا ہے

مگر کیا ان ضروری کاموں کی فہرست میں تم نے
مجھے ملنا، مجھے تکنا نہیں لکھا

کیا ان کاموں کے آخر سے بھی آخر میں
میرا درجہ نہیں آتا

بہت دشوار ہے میرے لیے اس کرب کو سہنا
نہیں ممکن مگر اس درد کا اب دل میں ہی رہنا

اگر فرصت ہو تو سوچو
جنہیں پوروں سے چنتے تھے
وہ آنسو رُلتے جاتے ہیں

جسے تم جان کہتے تھے
اگر وہ جان ہی نا ہو

تو پھر پھولوں کی خوشبو لے کر آنا بھی تو کیا آنا
کہ مٹی کی لحد پر بیٹھ کر واپس بلانے سے 
کوئی بھی آ نہیں جاتا

جو دنیا میں کسی کا غم نہ بانٹے، ساتھی وہ کیسا
کہ پلکوں کی گھنی جھالر کے گرنے پر
اسے رونا، بلانا ، وقت کو الزام دے دینا

بڑی فرسودہ باتیں ہیں
کہ تم تو جانتے ہوگے


گرا آنسو، گیا لمحہ اور پلکوں جا گرا پردہ
دوبارہ مڑ نہیں سکتا

Tuesday, October 9, 2012

آج کی رات کٹے گی کیسے


آج کی رات کٹے گی کیسے
دکھوں نے ڈیرا ڈالا ہے

تاریکی نے اپنا جوبن دکھایا ہے
اسی شکست سے خوف آنے لگا ہے

ہر سو ناکامی نے جو منہ دکھایا ہے
نیند آنے کا نام ہی نہیں لیتی

سکون اک زمانےکا ہم سے روٹھا ہے 
آج کی رات کٹے گی کیسے

اک مانوس سی آواز جو اکثر میرے کانوں میں پڑتی تھی
باعث راحت بنتی تھی

میری آنکھوں میں نیند آنے کا اک بہانہ بنتی تھی
آج وہ آواز کہیں گم ہو گئی ہے

مجھ سے روٹھ گئی ہے
اب نیند آئے تو کیسے آئے

کان اس آواز کے عادی ہوگئے ہیں
آنکھیں اس کی منتظر رہتی ہیں

وہ آواز کہاں کھو گئی ہے
میری راتیں اب کٹیں گی تو کیسےکٹیں گی 

تاریکوں کے ان مٹ سائے میں ہی کٹیں گی
شاید کہ بعد میں عادی ہو جاؤں ان سب باتوں کا
مگر جاناں بس یہ بتا دو کہ آج کی رات کٹے گی کیسے

Monday, October 8, 2012

لوٹ کر پہاڑوں سے اب صدائیں آتی ہیں


لوٹ کر پہاڑوں سے اب صدائیں آتی ہیں
خامشی ہے بستی میں، ڈوب ڈوب جاتی ہیں
لال سب کے سوئے ہیں پتھروں کے ڈھیروں میں
لوریاں یہ مائیں اب کیوں نہیں سناتی ہیں
بھائیوں کی لاشوں کو دیکھتی ہیں بہنیں بھی
دل میں درد اٹھتا ہے اور بیٹھ جاتی ہیں
حسرتیں رلاتی ہیں اُن خراب حالوں کو
خواہشیں امیدوں کے دیپ بھی جلاتی ہیں
زلزلے نے لائی ہیں وہ قیامتیں لوگو
جن کو سن کے روحیں بھی کانپ کانپ جاتی ہیں
آس پر ہی قائم ہے یہ نظام ہستی کا
دیکھ لو کہ پھر چڑیاں گھونسلے بناتی ہیں
 

نوحہ کیسے لکھوں گا!

آپ مجھ سے کہتے ہیں
اُن کا نوحہ لکھوں میں!
آپ کے تصرّف میں
لفظ ہوں اگر ایسے
جو کہ سب نے دیکھا ہے
وہ بیان کر پائیں
مجھ کو بھی عطا کیجے
میں تو خود کئی دن سے
اُس مہیب ملبے کے
بوجھ سے نہیں نکلا
اور ہاتھ میرے بھی کٹ گئے ہیں، ایسے میں
نوحہ کیسے لکھوں گا!

وَمَا اَدرٰ کَ ماالقاَرِعَہَ


وَمَا اَدرٰ کَ ماالقاَرِعَہَ

(آٹھ اکتوبر کے زلزے کے تناظر میں)


بتا اے اِبنِ آدم!

کیا خطا تجھ سے ہوئی تھی؟
کہ جب تو آٹھ اکتوبر کو
شب بھر چین سے سو کر اُٹھا تو
یوں لگا جیسے ابد کی نیند سے تجھ کو کسی ”القَارِعَہ“ نے خود جگایا ہو

تو پھر تجھ کو بھی یہ ادراک ہو جانے لگا ہو

کہ یہ ”القَارِعَہ“ کیا ہے؟

سُنا ہے چند لمحوں کے لئے

سارے علاقے کے پہاڑ اُڑنے لگے
اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے مکیں
اپنے گھروں کے ڈھیر میں اوندھے پڑے تھے

ہر اک بستی، ہر اک مکتب

مساجد، مدرسے اور دفتری دیوار و در
یوں اپنی چھت کے نیچے خود ہی آکر دب چکے تھے
کہ جیسے مالکِ کُل نے تباہی کے فرشتے کو
اشارہ کر دیا ہو

اور اُس نے حکم پاتے ہی

مظفر باد، بالا کوٹ، اَلائی ، مانسہرے اور
ان سے ملحقہ سارے علاقوں کے
مہکتے گلستانوں میں
اجل کی آگ بھر دی ہو

تمہیں معلوم کیا اے ابنِ آدم۔۔۔!


تمہیں معلوم کیا وہ آگ کیا تھی؟

وہ نارۘ حامیہ کا اک شرارہ تھی
جسے معصوم مٹی سہہ نہ پائی
اور بہت ہی مضطرب، بے چین ہو کر
کروٹیں لینے لگی

کروٹیں ایسی کہ چند لمحوں میں

سارے شہر غم کی راکھ بن کر بجھ گئے ہیں!

زلزلہ کیا ہوا



پوچھ درویش جی زلزلہ کیا ہوا
اک قیامت ہوئی زلزلہ کیا ہوا
ذہن مفلوج ہے سوجھ کیا بوجھ کیا
رہ گئی شاعری زلزلہ کیا ہوا
اشک تھمتے نہیں ، پاؤں جمتے نہیں
نیند بھی اُڑ گئی ، زلزلہ کیا ہوا
کتنے افراد سے دیکھتے دیکھتے
یاں پناہ چھن گئی ، زلزلہ کیا ہوا
عمر بھر کی کمائی یہاں دفعتاً
خاک میں دب گئی ، زلزلہ کیا ہوا
ماؤں سے پُوت اُن کے جدا ہو گئے
مامتا رو پڑی ، زلزلہ کیا ہوا
شیرخواروں سے مائیں جدا ہو گئیں
گود بھی چھن گئی ، زلزلہ کیا ہوا
یاں محلات سارے کھنڈر بن گئے
ڈھیر کٹیا ہوئی ، زلزلہ کیا ہوا
کتنے مکتب گرے علم والے اٹھے
روشنی کم ہوئی زلزلہ کیا ہوا
کیسے حالات میں کن سوالات میں
گھر گیا آدمی زلزلہ کیا ہوا
اہلِ ایمان کی اہلِ ایقان کی
آزمائش ہوئی زلزلہ کیا ہوا
میرے سینے سے جینے کی درویش جی
آرزو بجھ گئی زلزلہ کیا ہوا

ابھی کچھ ہی دیر پہلے




ابھی کچھ ہی دیر پہلے


ابھی کچھ ہی دیر پہلے، یہاں خواب پل رہے تھے
یہاں زندگی تھی روشن، یہ چراغ جل رہے تھے

یہیں پھول کھل رہے تھے، یہیں کھل رہی تھیں کلیاں
ابھی کچھ ہی دیر پہلے، یہاں تتلیاں تھیں رقصاں

تو نہ جانے کیا ہُوا یہ کہ لرز اٹھی زمیں بھی
پھٹے پر بَتوں کے سینے ، نہ پناہ تھی کہیں بھی

ابھی کچھ ہی دیر پہلے، یُوں ہُوا نزولِ آفت
تھے وہ بد نصیب لمحے کہ گزر گئی قیامت

ہے فلک ہی اوڑھنے کو، ہے زمیں ہی اب بچھونا
کہیں گم ہُوا ہے بچّہ، کہیں گم ہُوا کھلونا

کہیں لالِ گم شدہ کی یوں تلاش میں ہے ممتا
نہ ہی سر پہ ہے دوپٹہ نہ ہی پیر میں ہے جوتا

ابھی کچھ ہی دیرپہلے، جو کھنڈر ہے مدرسہ تھا
وہ دبی ہوئی ہے تختی، وہ پڑا ہوا ہے بستہ

کسی پھول سے بدن پرہیں سجی ہوئی خراشیں
کہیں بوڑھا باپ بیٹوں کی اُٹھا رہا ہے لا شیں

ابھی ان گنت ہیں لاشیں، ابھی ان گنت ہیں زخمی
سنو! آرہی ہے پیہم، یہ صدا مدد مدد کی

چلو ہم بھی چل کے خیموں کی بسائیں کوئی بستی
چلو، اُن کے دُکھ بٹائیں، چلو ، اُن کو دیں تسلّی

چلو، اشک اُن کے پونچھیں، چلو خواب کچھ سجائیں
چلو، تِیرہ بستیوں میں کوئی دیپ ہی جلائیں

اب یاد نہیں کس کو کہاں دفن کیا تھا



پانی تھا میسر نہ کفن تھا نہ دعائیں
بے طور ہر اک پیر و جواں دفن کیا تھا
ملبے سے نکالے تھے کئی پھول کئی خواب
اب یاد نہیں کس کو کہاں دفن کیا تھا









Tuesday, October 2, 2012

کیوں نام ہم اس کا بتلائیں


تم اس لڑکی کو دیکھتے ہو
تم اس لڑکی کو جانتے ہو
وہ اجلی گوری ؟ نہیں نہیں
وہ مست چکوری نہیں نہیں
وہ جس کا کرتا نیلا ہے؟
وہ جس کا آنچل پیلا ہے ؟
وہ جس کی آنکھ پہ چشمہ ہے
وہ جس کے ماتھے ٹیکا ہے
ان سب سے الگ ان سب سے پرے
وہ گھاس پہ نیچے بیلوں کے
کیا گول مٹول سا چہرہ ہے
جو ہر دم ہنستا رہتا ہے
کچھ چتان ہیں البیلے سے
کچھ اس کے نین نشیلے سے
اس وقت مگر سوچوں میں مگن
وہ سانولی صورت کی ناگن
کیا بے خبرانہ بیٹھی ہے
یہ گیت اسی کا در پن ہے
یہ گیت ہمارا جیون ہے
ہم اس ناگن کے گھائل تھے
ہم اس کے مسائل تھے
جب شعر ہماری سنتی تھی
خاموش دوپٹا چنتی تھی
جب وحشت اسے سستاتی تھی
کیا ہرنی سی بن جاتی تھی
یہ جتنے بستی والے تھے
اس چنچل کے متوالے تھے
اس گھر میں کتنے سالوں کی
تھی بیٹھک چاہنے والوں کی
گو پیار کی گنگا بہتی تھی
وہ نار ہی ہم سے کہتی تھی
یہ لوگ تو محض سہارے ہیں
انشا جی ہم تو تمہارے ہیں
اب اور کسی کی چاہت کا
کرتی ہے بہانا ۔۔۔ بیٹھی ہے
ہم نے بھی کہا دل نے بھی کہا
دیکھو یہ زمانہ ٹھیک نہیں
یوں پیار بڑھانا ٹھیک نہیں
نا دل مانا ، نا ہم مانے
انجام تو سب دنیا والے جانے
جو ہم سے ہماری وحشت کا
سنتی ہے فسانہ بیٹھی ہے
ہم جس کے لئے پردیس پھریں
جوگی کا بدل کر بھیس پھریں
چاہت کے نرالے گیت لکھیں
جی موہنے والے گیت لکھیں
اس شہر کے ایک گھروندے میں
اس بستی کے اک کونے میں.
کیا بے خبرانہ بیٹھی ہے
اس درد کو اب چپ چاپ سہو
انشا جی لہو تو اس سے کہو
جو چتون کی شکلوں میں لیے
آنکھوں میں لیے ،ہونٹوں میں لیے
خوشبو کا زمانہ بیٹھی ہے
لوگ آپ ہی آپ سمجھ جائیں
کیوں نام ہم اس کا بتلائیں
ہم جس کے لیے پردیس پھرے
چاہت کے نرالے گیت لکھے
جی موہنے والے گیت لکھے
جو سب کے لیے دامن میں بھرے
خوشیوں کا خزانہ بیٹھی ہے
جو خار بھی ہے اور خوشبو بھی
جو درد بھی ہے اور دار و بھی
لوگ آپ ہی آپ سمجھ جائیں
کیوں نام ہم اس کا بتلائیں
وہ کل بھی ملنے آئی تھی
وہ آج بھی ملنے آئی ہے
جو اپنی نہیں پرائی ہے

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Follow on Facebook