میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا

Ads

Tuesday, October 8, 2013

آٹھ اکتوبر ۲۰۰۵ء


آٹھ اکتوبر ۲۰۰۵ء
(احمد ندیم قاسمی)

لکھوں تو کیا لکھوں!
کیسے لکھوں!
لفظوں کی ٹوٹی ہڈّیوں کو کیسے جوڑوں
سبھی روندے ہوۓ حرفوں سے،
نقطوں سے
جو پھوٹا پڑ رہا ہے جیتا جیتا خوں
صفحۂ قرطاس پر چنگاریاں بن کر ٹپکتا ہے
زباں کچلی پڑی ہے
اور اگر بولوں
تو لگتا ہے
مجھے چیخوں کے سوا کچھ بھی نہیں آتا
جنازوں پر یہاں زندہ جنازے سینہ زن ہیں
کچھ اگر باقی ہے تو رگ و پے میں اترتا درد ہے
قلب و جگر کو چیرتا دُکھ ہے
مجھے تو یہ کہنا نہیں آتا
کچھ آتا ہے
تو ایسے المیے پر
اور عناصر کے مقابل اپنی فطری بے بسی پر
ٹوٹ کر رونا ہی آتا ہے
لکھوں تو کیا لکھوں!
• — — — — — — — — — — — — •
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Follow on Facebook