میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا

Ads

Saturday, January 7, 2012

اس سے بہتر بھی نظم کیا ہوگی


نظم الجھی ہوئی ہے سینے میں
شعر اٹکے ہوئے ہیں ہونٹوں پر
لفظ کاغذ پہ بیٹھتے ہی نہیں
اُڑتے پھرتے ہیں تتلیوں کی طرح
کب سے بیٹھا ہوا ہوں میں جانم
سادہ کاغذ پہ لکھ کہ نام تیرا
کس ترا نام ہی مکمل ہے
اس سے بہتر بھی نظم کیا ہوگی۔

وہ آنکھ جس کو ترا انتظار اب بھی ہے



خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہو تو
سکوں کی نیند تجھے بھی حرام ہو جائے

تری مسرّتِ پیہم تمام ہو جائے
تری حیات تجھے تلخ جام ہو جائے

غموں سے آئینۂ دل گداز ہو تیرا
ہجومِ یاس سے بیتاب ہو کے رہ جائے

وفورِ درد سے سیماب ہو کے رہ جائے
ترا شباب فقط خواب ہو کے رہ جائے

غرورِ حسن سراپا نیاز ہو تیرا
طویل راتوں میں تو بھی قرار کو ترسے

تری نگاہ کسی غمگسار کو ترسے
خزاں رسیدہ تمنا بہار کو ترسے

کوئی جبیں نہ ترے سنگِ آستاں پہ جھکے
کہ جنسِ عجزو عقیدت سے تجھ کو شاد کرے

فریبِ وعدۂ فردا پہ اعتماد کرے
خدا وہ وقت نہ لائے کہ تجھ کو یاد آئے

وہ دل کہ تیرے لیے بیقرار اب بھی ہے
وہ آنکھ جس کو ترا انتظار اب بھی ہے

میں بارشوں میں جو یاد آؤں


میں بارشوں میں جو یاد آؤں
میں بارشوں میں جو یاد آؤں

تو سوچ لینا

کہ اس کی بوندوں میں میرے اشکوں نے گھر کیا ہے
سفر کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اثر کیا ہے

میں بارشوں میں جو یاد آؤں

تو سوچ لینا

کہ بھیگے موسم نے میرا آنچل بھگو دیا ہے
تھا درد ہجراں بڑا ہی قاتل
وہ میرے دل میں سمودیا ہے

تمہارے وعدوں کا تھا محل جو،
تھی اس کی بنیاد پانیوں پر
یہی سبب ہے کہ تیز لہروں نے اس کو آخر،
ڈبو دیا ہے

میں بارشوں میں جو یاد آؤں،
تو سوچ لینا

اک کہانی سبھی نے سنائی مگر ، چاند خاموش تھا



اک کہانی سبھی نے سنائی مگر ، چاند خاموش تھا
اس کی آواز کا منتظر تھا نگر ، چاند خاموش تھا

کون تھا جس کی آہوں کے غم میں ہوا سرد تھی شہر کی
کس کی ویران آنکھوں کا لے کے اثر، چاند خاموش تھا

وہ جو سہتا رہا رت جگوں کی سزا چاند کی چاہ میں
مرگیا تو نوحہ کناں تھے شجر، چاند خاموش تھا

اس سے مل کے میں یوں خامشی اور آواز میں قید تھا
اک صدا تو مرے ساتھ تھی ہم سفر ، چاند خاموش تھا

کل کہیں پھر خدا کی زمیں پر کوئی سانحہ ہوگیا
میں نے کل رات جب بھی اٹھائی نظر ، چاند خاموش تھا

تنہا رہنا سیکھ رہا ہوں



تنہا رہنا سیکھ رہا ہوں
مر کے جینا سیکھ رہا ہوں
مانگ کے پانا سیکھ لیا ہے
پا کے کھونا سیکھ رہا ہوں
صبر کو زاد راہ بنا کر
کانچ پہ چلنا سیکھ رہا ہوں
پھرتے پھرتے شہر شہر میں
پیاس کو پینا سیکھ رہا ہوں
جینے کے ہیں عجب تقاضے
زندہ رہنا سیکھ رہا ہوں
مدہوشی نے بڑا ستایا
ہوش میں رہنا سیکھ رہاہوں
اس پہ میں حیراں بھی بہت ہوں
کرتب کیا کیا سیکھ رہا ہوں

چاند چہرہ، ستارہ آنکھيں


چاند چہرہ، ستارہ آنکھيں
ميرے خدايا
ميں زندگي کے عذاب لکھوں
کہ خواب لکھوں
يہ ميرا چہرہ، يہ ميري آنکھيں
بُجھے ہوئے سے چراغ جيسے
جو پھر سے جلنے کے منتظر ہوں
وہ چاند چہرہ، ستارہ آنکھيں
وہ مہرباں سايہ دار زلفيں
جنہوں نے پيماں کيے تھے مجھ سے
رفاقتوں کے، محبتوں کے
کہا تھا مجھ سے
کہ اے مسافر رِہ وفا کے
جہاں بھي جائے گا
ہم بھي آئيں گے ساتھ تيرے
بنيں گے راتوں ميں چاندني ہم
تو دن ميں تارے بکھير ديں گے
وہ چاند چہرہ، ستارہ آنکھيں
وہ مہرباں سايہ دار زلفيں
وہ اپنے پيماں
رفاقتوں کے، محبتوں کے
شکست کرکے
نہ جانے اب کس کي رہ گزر کا
مينارہِ روشني ہوئے ہيں
مگر مسافر کو کيا خبر ہے
وہ چاند چہرہ تو بجھ گيا ہے
ستارہ آنکھيں تو سو گئي ہيں
وہ زلفيں بے سايہ ہو گئيں ہيں
وہ روشني اور وہ سائے مري عطا تھے
سو مري راہوں ميں آج بھي ہيں
کہ ميں مسافر رہِ وفا کا
وہ چاند چہرہ، ستارہ آنکھيں
وہ مہرباں سايہ دار زلفيں
ہزاروں چہروں، ہزاروں آنکھوں، ہزاروں زلفوں کا
ايک سيلابِ تند لے کر
ميرے تعاقب ميں آرہے ہيں
ہر ايک چہرہ ہے چاند چہرہ
ہيں ساري آنکھيں ستارہ آنکھيں
تمام ہيں مہرباں سايہ دار زلفيں
ميں کِس کو چاہوں، ميں کس کو چُوموں
ميں کس کے سايہ ميں بيٹھ جاؤں
بچوں کہ طوفاں ميں ڈوب جاؤں
کہ ميرا چہرہ، نہ ميري آنکھيں
ميرے خدايا ميں زندگي کے عذاب لکھوں، کہ خواب لکھوں

ہم اپنے خواب کیوں بیچیں



ہم اپنے خواب کیوں بیچیں

فقیرانہ روش رکھتے تھے
لیکن اس قدر نادار بھی کب تھے
کہ اپنے خواب بیچیں
ہم اپنے زخم آنکھوں میں لئے پھرتے تھے
لیکن روکشِ بازار کب تھے
ہمارے ہاتھ خالی تھے
مگر ایسا نہیں پھر بھی
کہ ہم اپنی دریدہ دامنی
الفاظ کے جگنو
لئے گلیوں میں آوازہ لگاتے
"خواب لے لو خواب"
لوگو
اتنے کم پندار ہم کب تھے
ہم اپنے خواب کیوں بیچیں
کہ جن کو دیکھنے کی آرزو میں
ہم نے آنکھیں تک گنوا دی تھیں
کہ جن کی عاشقی میں
اور ہوا خواہی میں
ہر ترغیب کی شمعیں بجھا دی تھیں
چلو ہم بے‌نوا
محرومِ سقف و بام و در ٹھہرے
پر اپنے آسماں کی داستانیں
اور زمیں کے انجم و مہتاب کیوں بیچیں
خریدارو!
تم اپنے کاغذی انبار لائے ہو
ہوس کی منڈیوں سے درہم و دینار لائے ہو
تم ایسے دام تو ہر بار لائے ہو
مگر تم پر ہم اپنے حرف کے طاؤس
اپنے خون کے سرخاب کیوں بیچیں
ہمارے خواب بے‌وقعت سہی
تعبیر سے عاری سہی
پر دل‌زدوں کے خواب ہی تو ہیں
نہ یہ خوابِ زلیخا ہیں
کہ اپنی خواہشوں کے یوسفوں پر تہمتیں دھرتے
نہ یہ خوابِ عزیزِ مصر ہیں
تعبیر جن کی اس کے زندانی بیان کرتے
نہ یہ ان آمروں کے خواب
جو بے‌آسرا خلقِ خدا کو دار پر لائیں
نہ یہ غارت‌گروں کے خواب
جو اوروں کے خوابوں کو تہہِ شمشیر کر جائیں
ہمارے خواب تو اہلِ صفا کے خواب ہیں
حرف و نوا کے خواب ہیں
مہجور دروازوں کے خواب
محصور آوازوں کے خواب
اور ہم یہ دولتِ نایاب کیوں بیچیں
ہم اپنے خواب کیوں بیچیں؟

احمد فراز

چاند مري کھڑکي ميں آئے، تب ہے نا



چاند کبھي تو تاروں کي اس بھيڑ سے نکلے
اور مري کھڑکي ميں آئے
بالکل تنہا اور اکيلا
ميں اس کو باہوں ميں بھرلوں
ايک ہي سانس سب کي سب وہ باتيں کرلوں
جو ميرے تالو سے چمٹي
دل ميں سمٹي رہتي ہيں
سب کچھ ايسے ہي ہوجائے جب ہے نا
چاند مري کھڑکي ميں آئے، تب ہے نا

تتلیاں پکڑنے کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تتلیاں پکڑنے کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔“

کتنا سہل جانا تھا
خوشبوؤں کو چھو لینا
بارشوں کے موسم میں شام کا ہرایک منظر
گھر میں قید کر لینا
روشنی ستاروں کی مٹھیوں میں بھر لینا

کتنا سہل جانا تھا
خوشبوؤں کو چھو لینا
جگنوؤں کی باتوں سے پھول جیسے آنگن میں
روشنی سی کرلینا
اس کی یاد کا چہرہ خوابناک آنکھوں کی
جھیل کے گلابوں پر دیر تک سجا رکھنا

کتنا سہل جانا تھا

اے نظر کی خوش فہمی ! اس طرح نہیں ہوتا
“تتلیاں پکڑنے کو دور جانا پڑتا ہے“

پردیس میں رہنے والے


پردیس میں رہنے والے
 

جو گھر سے دُور ہوتے ہیں
بہت مجبُور ہوتے ہیں
کبھی باغوں میں سوتے ہیں
کبھی چھپ چھپ روتے ہیں
غیروں کو یاد کرتے ہیں
پھر فریاد کرتے ہیں
مگر جو بے سہارا ہوں
غیروں سے بے کنارا ہوں
اُنہیں گھر کون دیتا ہے
یہ خطرہ کون لیتا ہے
بڑی مشکل سے ایک کمرہ
جہاں کوئی نہ ہو رہتا
نگر سے پار ملتا ہے
بہت بیکار ملتا ہے
تو پھر دو تین ہم جیسے
ملتے ہیں سب پیاسے
اور آپس میں یہ کہتے ہیں
کہ مل جُل کر ہی رہتے ہیں
کوئی کھانا بنائے گا
کوئی جھاڑو لگائے گا
کوئی دھوئے گا سب کپڑے
تو رہ لیں گے بڑے سُکھ سے
مگر گرمی بھری راتیں
تپیش آلود سوغاتیں
اور اُوپر سے عجیب کمرہ
گُھٹن اور حبس کا پہرہ
تھکن سے چُور ہوتے ہیں
سکُون سے دُور ہوتے ہیں
بہت جی چاہتا ہے جب
کہ ماں کو بھیج دے یارب
جو اپنی گود میں لے کر
ہمیں ٹھنڈی ہوا دے کر
سلا دے نیند کچھ ایسی
کہ ٹوٹے پھر نہ ایک پل بھی
مگر کچھ بھی نہیں ہوتا
تو کر لیتے ہیں سمجھوتہ
کوئی دل میں بِلکتا ہے
کوئی پہروں سُلگتا ہے
جب اپنا کام کر کے ہم
پلٹتے ہیں تو آنکھیں نَم
مکان ویران ملتا ہے
بہت بے جان ملتا ہے
کوشش مدھوم ہوتی ہے
فضا مغموم رہتی ہے
بڑے رنجور کیوں نہ ہوں
بڑے مجبور کیوں نہ ہوں
اوائل میں مہینے کے
سب اپنے خون پسینے کے
جو پیسے جوڑ لیتے ہیں
گھروں کو بھیج دیتے ہیں
اور اپنے خط میں لکھتے ہیں
ہم اپنا دھیان رکھتے ہیں
بڑی خوبصورت گاڑیاں ہیں
ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہیں
ہم یہاں بہت خوش رہتے ہیں
جبھی تو واپس نہیں آتے ہیں

میں سال کا آخری سورج ہوں


میں سال کا آخری سورج ہوںمیں سب کے سامنے ڈوب چلاکوئی کہتا ہے میں چل نہ سکاکوئی کہتا ہے کیا خُوب چلامیں سب کے سامنے ڈوب چلا...اس رخصتِ عالم میں مجھ کواک لمحہ رخصت مل نہ سکیجس شب کو ڈھونڈنے نکلا تھااس شب کی چاہت مل نہ سکییہ سال کہاں، اک سال کا تھایہ سال تو اک جنجال کا تھایہ زیست جو اک اک پَل کی ہےیہ اک اک پَل سے بنتی ہےسب اک اک پَل میں جیتے ہیںاور اک اک پَل میں مرتے ہیںیہ پَل ہے میرے مرنے کامیں سب کے سامنے ڈوب چلا
اے شام مجھے تُو رخصت کر
تُو اپنی حد میں رہ لیکن
دروازے تک تو چھوڑ مجھے
وہ صبح جو کل کو آئے گی
اک نئی حقیقت لائے گی
تُو اُس کے لئے، وہ تیرے لئے
اے شا،م! تُو اتنا جانتی ہے
اک صبحِ امید ، آثار میں ہے
اک در تیری دیوار میں ہے
اک صبحِ قیامت آنے تک
بس میرے لیے بس میرے لیےیہ وقت ہی وقتِ قیامت ہےاب آگے لمبی رخصت ہےاے شام جو شمعیں جلاؤ تماک وعدہ کرو ان شمعوں سےجو سورج کل کو آئے یہاںوہ آپ نہ پَل پَل جیتا ہووہ آپ نہ پَل پَل مرتا ہووہ پُورے سال کا سورج ہواے شام مجھے تو رخصت کر

جانے کس دیس گئے خواب ہمارے لے کر



جانے کس دیس گئے خواب ہمارے لے کر

چھاؤں میں بیٹھنے والے ہی تو سب سے پہلے
پیڑ گِرتا ہے تو آجاتے ہیں آرے لے کر

وہ جو آسودہِ ساحل ہیں انہیں کیا معلوم
اب کے موج آئی تو پلٹے گی کنارے لے کر

ایسا لگتا ہے کہ ہر موسمِ ہجراں میں بہار
ہونٹ رکھ دیتی ہے شاخوں پہ تمھارے لے کر

شہر والوں کو کہاں یاد ہے وہ خواب فروش
پھرتا رہتا ہے جو گلیوں میں غبارے لے کر

نقدِ جاں صرف ہوا خلفتِ ہستی میں ‌فراز
اب جو زندہ ہیں تو کچھ سانس ادھارے لے کر

احمد فراز

muhabbat ki aseeri say rehai mangtay rehna


محبت کی اسیری سے رہائی مانگتے رہنا
بہت آساں نہیں ہوتا جدائی مانگتے رہنا

ذرا سا عشق کر لینا،ذرا سی آنکھ بھر لینا
عوض اِس کے مگر ساری خدائی مانگتے رہنا

کبھی محروم ہونٹوں پر دعا کا حرف رکھ دینا
کبھی وحشت میں اس کی نا رسائی مانگتے رہنا

وفاؤں کے تسلسل سے محبت روٹھ جاتی ہے
کہانی میں ذرا سی بے وفائی مانگتے رہنا

عجب ہے وحشت ِ جاں بھی کہ عادت ہو گئی دل کی
سکوتِ شام ِ غم سے ہم نوائی مانگتے رہنا

کبھی بچے کا ننھے ہاتھ پر تتلی کے پر رکھنا
کبھی پھر اُس کے رنگوں سے رہائی مانگتے رہنا

نوشی گیلانی

Friday, January 6, 2012

2012

badalnay hain to din badlo, badaltay ho to hindsay he
maheenay phir wohi houn gy, bechara saal badlay ga

Sunday, January 1, 2012

کوئی بولے تو برا لگتا ہے



سر بازار ہے یاروں کی تلاش
جو گزرتا ہے خفا لگتا ہے

اتنا مانوس ہوں سناٹے سے
کوئی بولے تو برا لگتا ہے

اے نئے سال بتا، تُجھ ميں نيا پن کيا ہے؟




اے نئے سال بتا، تُجھ ميں نيا پن کيا ہے؟
ہر طرف خَلق نے کيوں شور مچا رکھا ہے

روشنی دن کی وہي تاروں بھري رات وہی
آج ہم کو نظر آتي ہے ہر ايک بات وہی

آسمان بدلا ہے افسوس، نا بدلی ہے زميں
ايک ہندسے کا بدلنا کوئي جدت تو نہيں

اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرينے تيرے
کسے معلوم نہيں بارہ مہينے تيرے

جنوري، فروري اور مارچ ميں پڑے گي سردي
اور اپريل، مئي اور جون ميں ہو گي گرمي

تيرا مَن دہر ميں کچھ کھوئے گا کچھ پائے گا
اپنی ميعاد بَسر کر کے چلا جائے گا

تو نيا ہے تو دکھا صبح نئي، شام نئی
ورنہ اِن آنکھوں نے ديکھے ہيں نئے سال کئی

بے سبب لوگ ديتے ہيں کيوں مبارک باديں
غالبا بھول گئے وقت کی کڑوي ياديں

تيری آمد سے گھٹی عمر جہاں سے سب کی
فيض نے لکھی ہے يہ نظم نرالے ڈھب کی

(فیض احمد فیض)
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Follow on Facebook