میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا

Ads

Wednesday, August 29, 2012

کاش کہ میں کبھی شاعر ہوتا



سوچتا ہوں کہ شاعری کر لوں
پھر تیرے نام اِک غزل لکھوں
تیری آنکھیں خُمار آلُودہ
بِن پیے میں کہیں بہک جاؤں
تُو بنے پھول اِس گلستاں کا
اور میں گیت تمہارے لکھوں
مِثلِ بُلبُل ہر ایک ڈالی پر
اُڑتے اُڑتے میں تیرے گُن گاؤں
چاہتا ہوں میں کوئی نظم لکھوں
تیری زلفیں ہوا میں بکھراؤں
یہ سراپا تیرا اے جانِ غزل!
چند اشعار میں بیان کروں
اپنے دل کی لگی بھی کہہ ڈالوں
اور یہ سب تمہاری نذر کروں
کاش میں ایسی نظم لکھ لیتا!
کاش کہ میں کبھی شاعر ہوتا!

Saturday, August 25, 2012

تو سلامت رہے بس یہی دعا


دور ہو کے بھی آپ کے پاس رہا کرتے ہیں۔
تیری یادوں کے سہارے جیا کرتے ہیں
تجھ سے کوئی شکایت نہ گلہ کرتے ہیں
تو سلامت رہے بس یہی دعا کرتے ہیں

دُعا کا ٹوٹا ہُوا حرف، سرد آہ میں ہے



دُعا کا ٹوٹا ہُوا حرف، سرد آہ میں ہے
تری جُدائی کا منظر ابھی نگاہ میں ہے

ترے بدلنے کے با وصف تجھ کو چاہا ہے
یہ اعتراف بھی شامل مرے گناہ میں ہے

اب دے گا تو پھر مجھ کو خواب بھی دے گا
میں مطمئن ہوں، مرا دل تری پناہ میں ہے

بکھر چُکا ہے مگر مُسکراکے ملتا ہے
وہ رکھ رکھاؤ ابھی میرے کج کلاہ میں ہے

جسے بہار کے مہمان خالی چھوڑ گئے
وہ اِک مکا ن ابھی تک مکیں کی چاہ میں ہے

یہی وہ دن تھے جب اِک دوسرے کو پایا تھا
ہماری سالگرہ ٹھیک اب کے ماہ میں ہے

میں بچ بھی جاؤں تو تنہائی مار ڈالے گی
مرے قبیلے کا ہر فرد قتل گاہ میں ہے!


شاعر: پروین شاکر

وہ ہمیں بھول گیا ہے تو کوئی بات نہیں

وہ ہمیں بھول گیا ہے تو کوئی بات نہیں
آج وہ وقت ہے کہ لوگوں کوخدایاد نہیں

نیا درد جگا کر چلا گیا








نیا درد جگا کر چلا گیا





نیا درد اِک دل میں جگا کر چلا گیا
کل پھر وہ میرے شہر میں آکر چلا گیا




جسے ڈھونڈتی رہی میں لوگوں کی بھیڑ میں
مجھ سے وہ اپنا آپ چھپا کر چلا گیا



میں اُس کی خاموشی کا سبب پوچھتی رہی
وہ قصے ادھر اُدھر کے سنا کر چلا گیا



یہ سوچتی ہوں کہ کیسے بھلائوں گی اُسے
اِک شخص وہ جو مجھ کو بھولا کر چلا گیا



پروین شاکر

وہ مجھ کو رکھ کے بھول گیا


میں اک پھول ہوں وہ مجھ کو رکھ کے بھول گیا....

تمام عمر اسی کی کتاب میں گزری


Sunday, August 19, 2012


آج پھر عید آئی ھے اے دوست
آج پھر تیری یاد آئی ھے
صرف کچھ مسکراہٹیں ہی نہیں
چند آنسو بھی ساتھ لائی ھے

مجھہ کو اب کچھہ بھی تیرے غم کے سوا یاد نہیں


اے میرے بھولنے والے تیری خوشیوں کی قسم 
مجھہ کو اب کچھہ بھی تیرے غم کے سوا یاد نہیں
چاند دیکھا ہے تو یاد آئی ہے صورت تیری
ہاتھہ اٹھے ہیں مگر حرف دعا یاد نہیں 

Monday, August 13, 2012

پردیس کی عید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


تمام پردیس والوں کیلئے۔۔۔۔پر رونا نہیں صرف آنکھوں میں آنسو ۔۔۔

پردیس کی عید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا سنائیں کس حال میں آتی ہے پردیس کی عید

نکل آتے ہیں آنسو جب یاد آتی ہے دیس کی عید


رہیں وہ خوش وخرم گھر میں اپنے
جن کیلئے ہم کو رُلاتی ہیں پردیس کی عید

آتے ہیں یاد جب وہ پھول سے چہرے
اُس لمحے ہم کو کتنا تڑپاتی ہے پردیس کی عید

کس سے گلےملیں کسے کہیں گے اپنا ہم

بس یوں ہی تنہائی میں گزرجاتی ہے پردیس کی عید
کہتے ہیں ہر بار بس پردیس کی ہے یہ آخری عید

اگلے سال پھر آجاتی ہے پردیس کی عید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے چاہا اس عید پر

میں نے چاہا اس عید پر
اک ایسا تحفہ تیری نظر کروں
اک ایسی دعا تیرے لئے مانگوں
جو آج تک کسی نے کسی کے لئے نہ مانگی ہو
جس دعا کو سوچ کر ہی
دل خوشی سے بھر جائے
جسے تو کبھی بھولا نہ سکے
کہ کسی اپنے نےیہ دعا کی تھی
کہ آنے والے دنوں میں
غم تیری زندگی میں کبھی نہ آئے
تیرا دامن خوشیوں سے
ہمیشہ بھرا رہے
پر چیز مانگنے سے پہلے
تیری جھولی میں ہو
ہر دل میں تیرے لیے پیار ہو
ہر آنکھ میں تیرے لیے احترام ہو
ہر کوئی بانہیں پھیلائے تجھے
اپنے پاس بلاتا ہو
ہر کوئی تجھے اپنانا چاہتا ہو
تیری عید واقعی عید ہوجائے
کیوں کہ کسی اپنے کی دعا تمہارے ساتھ ہے

Friday, August 10, 2012

آج اس کی یاد نے ہمیں تڑپایا بہت

آج اس کی یاد نے ہمیں تڑپایا بہت

آج اس کی یاد نے ہمیں تڑپایا بہت
آج نہ چاہتے ہوئے بھی وہ یاد آیا بہت


اس کے بعد تو جیسے وحشتوں سے دوستی ہو گئی
پھر کیوں آج تنہایوں نے ڈرایا بہت


وہ میرا تھا، میرا ہے، میرا رہے گا
ہم نے اس خیال سے خود کو بہلایا بہت


شمع کے جلنے پر ہم افسوس کریں کیوں
ہم نے بھی مانندِ شمع خود کو جلایا بہت


ہم نے جس کسی کو بھی ہمدرد سمجھا ‘عاصم‘
وہ ہمارے دکھ پہ نہ جانے کیوں مسکرایا بہت

r:o:s:e r:o:s:e r:o:s:e r:o:s:e r:o:s:e 
r:o:s:e r:o:s:e r:o:s:e r:o:s:e 
r:o:s:e r:o:s:e r:o:s:e 
r:o:s:e r:o:s:e 
r:o:s:e

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Follow on Facebook