میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا

Ads

Wednesday, November 30, 2011

پھر دسمبر کی یکم آئی ہے


پھر دسمبر کی یکم آئی ہے اور وہی پرانی یخ بستہ راتیں
پھر تیری یادیں ہیں دل میں اور دسمبر کی راتیں

دن تو کسی طور کٹ ہی جاتا ہے اے متاع زیست
مگر مجھے سونے نہیں دیتیں یہ دسمبر کی راتیں

یہ دو ہی چیزیں جاں کا عذاب بنی ہیں ہمدم
اک ہر قدم پہ رقیب دوسری یہ دسمبر کی راتیں

تو اسی موسم میں مجھ کو تنہا چھوڑ گیا تھا
میرا گواہ ہے یہ چاند اور دسمبر کی راتیں

ہر ماہ کی راتیں اترتی ہیں میرے آنگن میں
جانے کیوں مجھے پاگل سا کر دیتی ہیں یہ دسمبر کی راتیں

میری کل محبت کا حاصل بس یہی ہے فیاض
بکھرے پھول تیز ہوائیں اور دسمبر کی راتیں

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Follow on Facebook