میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا

Ads

Monday, January 24, 2011

غمِ زندگی تیرا شکریہ ترے فیض ہی سے یہ حال ہے

غمِ زندگی تیرا شکریہ ترے فیض ہی سے یہ حال ہے
وہی صبح و شام کی الجھنیں، وہی رات دن کا وبال ہے

نہ چمن میں بوئے سمن رہی نہ ہی رنگِ لالہ و گل رہا

تو خفا خفا سا ہے واقعی کہ یہ صرف میرا خیال ہے

اسے کیسے زیست کہے کوئی گہے آہِ دل گہے چشمِ نم

وہی رات دن کی مصیبتیں وہی ماہ ہے وہی سال ہے

میں غموں سے ہوں جو یوں مطمئن تو برا نہ مانے تو میں کہوں

ترے حسن کا نہیں فیض کچھ، میری عاشقی کا کمال ہے

ہے یہ آگ کیسی لگی ہوئی میرے دل کو آج ہوا ہے کیا

جو ہے غم تو ہے غمِ آرزو، اگر ہے تو فکرِ وصال ہے

کوئی کاش مجھ کو بتاسکے رہ و رسمِ عشق کی الجھنیں

وہ کہے تو بات پتے کی ہے میں کہوں تو خام خیال ہے

زہے عشقِ احمدۖ مصطفےٰ نہیں فکر روزِ جزا مجھے

یہی آرزوؤں کی عید ہے، یہی زندگی کا مآل ہے

یہ بتا کہ کیا ہے تجھے ہوا پئے عشق سرورِ غم زدہ

نہ وہ
مستیاں نہ وہ شوخیاں نہ وہ حال ہے نہ وہ قال ہے

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Follow on Facebook