میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا

Ads

Monday, January 24, 2011

دُکھ نوشتہ ہے تو آندھی کو لکھا ! آہستہ

دُکھ نوشتہ ہے تو آندھی کو لکھا ! آہستہ
اے خدا اب کے چلے زرد ہوا ، آہستہ
خواب جل جائیں ، مری چِشم تمنّا بُجھ جائے
بس ہتھیلی سے اُڑے رنگ حِنا آہستہ
زخم ہی کھولنے آئی ہے تو عجلت کیسی
چُھو مرے جسم کو ، اے بادِ صبا ! آہستہ!
ٹوٹنے اور بکھرنے کا کوئی موسم ہو
پُھول کی ایک دُعا۔۔۔۔موجِ ہوا! آہستہ
جانتی ہوں کہ بچھڑنا تری مجبوری ہے
مری جان ! ملے مجھ کو سزا آہستہ
میری چاہت میں بھی اب سوچ کا رنگ آنے لگا
اور ترا پیار بھی شدّت میں ہوا آہستہ
نیند پر جال سے پڑنے لگے آوازوں کے
اور پھر ہونے لگی تیری صدا آہستہ
رات جب پُھول کے رُخسار پہ دھیرے سے جھکی
’’چاند نے جھک کے کہا، اور ذرا آہستہ!‘‘

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Follow on Facebook