میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا

Ads

Monday, October 8, 2012

لوٹ کر پہاڑوں سے اب صدائیں آتی ہیں


لوٹ کر پہاڑوں سے اب صدائیں آتی ہیں
خامشی ہے بستی میں، ڈوب ڈوب جاتی ہیں
لال سب کے سوئے ہیں پتھروں کے ڈھیروں میں
لوریاں یہ مائیں اب کیوں نہیں سناتی ہیں
بھائیوں کی لاشوں کو دیکھتی ہیں بہنیں بھی
دل میں درد اٹھتا ہے اور بیٹھ جاتی ہیں
حسرتیں رلاتی ہیں اُن خراب حالوں کو
خواہشیں امیدوں کے دیپ بھی جلاتی ہیں
زلزلے نے لائی ہیں وہ قیامتیں لوگو
جن کو سن کے روحیں بھی کانپ کانپ جاتی ہیں
آس پر ہی قائم ہے یہ نظام ہستی کا
دیکھ لو کہ پھر چڑیاں گھونسلے بناتی ہیں
 

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Follow on Facebook