میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا

Ads

Monday, July 9, 2012

میں بیٹی ہوں میں اپنی ماں کو اپنے ساتھ لے آئی





اسے تنہا سسکتا چھوڑ جب آیا میرا بھائی 
میں بیٹی ہوں میں اپنی ماں کو اپنے ساتھ لے آئی 

وہ بوڑھی ہو گئی تو اب اسے اک بوجھ لگتی ہے 
جوانی اپنے بچوں کے لیے جس نے تھی جھلسائی

ہے بس اپنی ہی بیوی اور بچوں سے اسے مطلب 
اسی کو بھول بیٹھا ہے جو دنیا میں اسے لائی

بڑی گاڑی، بڑا بنگلہ، بڑا عہدہ سبھی کچھ ہے 
 مگر ماں باپ جب مانگیں، نہیں جیبوں میں اک پائی

وہ کتا پال سکتا ہے مگر ماں بوجھ لگتی ہے 
اسے کتے نے کیا کچھ بھی وفاداری نہ سکھلائی 

جو جیسا بیج بوتا ہے وہ پھل ویسا ہی پاتا ہے 
 بڑھاپا تجھ پہ بھی آئے گا، کیوں بھولا یہ سچائی 

تیرا بیٹا جو دیکھے گا، وہی تو وہ بھی سیکھے گا ؟
 تو اپنے واسطے ہاتھوں سے اپنے کھود نہ کھائی 

جو ودیاشرم میں بیٹا چھوڑ کر تجھ کو چلا آئے 
اگر زندہ رہی، پوچھے گی تجھ سے تیری ماں جائی

بتا کس کے لیے تو نے کمائی تھی یہاں دولت 
مگر جو اصل دولت فرض کی تھی وہ تو بسرای

کھلے گا جب خدا کے بنک میں کھاتا تیرا اک دن
تیرے سر پر بڑا قرضہ چڑھا ہو گا میرے بھائی 

جو منت مانگتے تھے "بس ہمیں بیٹا ہو، بیٹا ہو" 
انھیں بیٹی کی قیمت اب بڑھاپے میں سمجھ آئی 

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Follow on Facebook