میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا

Ads

Friday, February 11, 2011

وہ لوٹ آنے کے رستے تلاش کرتی تھی

گلی میں درد کے پرزے تلاش کرتی تھی
مرے خطوط کے ٹکڑے تلاش کرتی تھی

کہاں گئی وہ کنواری ۔ اداس بی آپا
جو گاؤں گاؤں میں رشتے تلاش کرتی تھی

بھالئے کون اذیت پسندیاں اس کی
خوشی کے ڈھیر میں صدمے تلاش کرتی تھی

عجب ہجر پرستی تھی اس کی فطرت میں
شجر کے ٹوٹتے پتے تلاش کرتی تھی

قیام کرتی تھی وہ مجھ میں صوفیوں کی طرح
اداس روح کے گوشے تلاش کرتی تھی

تمام رات وہ پردے پٹاکے چاند کے ساتھ
جو کھو گئے تھے وہ لمحے تلاش کرتی تھی

کچھ اس لئے بھی مرے گھر سے اس کو تھی وحشت
یہاں بھی اپنے ہی پیارے تلاش کرتی تھی

گھما پھرا کے جدائی کی بات کرتی تھی
ہمیشہ ہجر کے حربے تلاش کرتی تھی

تمام رات وہ زخما کے اپنی پوروں کو
مرے وجود کے ریزے تلاش کرتی تھی

دعائیں کرتی تھی اُجڑے ہوئے مزاروں پر
بڑے عجیب سہارے تلاش کرتی تھی


مجھے تو آج بتایا ہے بادلوں نے وصی
وہ لوٹ آنے کے رستے تلاش کرتی تھی
 

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Follow on Facebook